• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے تقریباً 167 برس قبل 1856ء میں سربین جوڑے کے گھر ایک بچے کی پیدائش ہوئی، اس بچے کی پیدائش کے وقت موسم انتہائی خراب تھا، یہ دیکھ کر بچے کی دائی نے اسے ’اندھیرے کا بچہ‘ کہا تو بچے کی ماں نے فوراً کہا کہ ’نہیں، یہ روشنی کا بچہ ہے‘۔

یہ روشنی کا بچہ آگے چل کر ’نکولا ٹیسلا‘ کے نام سے پہچانا گیا، جس نے بنی نوع انسان کو ایک ایسی ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا جس نے انسانی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

نکولا ٹیسلا کو آج دنیا ’بجلی کے مؤجد‘ کی حیثیت سے یاد کرتی ہے۔

چھوٹی عمر سے ہی نکولا ٹیسلا نے ریاضی اور انجینئرنگ میں غیر معمولی دلچسپی اور مہارت کا مظاہرہ کیا، تجسس اور تخیلات سے بھرپور دماغ نے انہیں ایسی ایجادات کے قابل بنایا جن کے بارے میں سُن کر دنیا آج بھی حیران رہ جاتی ہے۔

انہوں نے اپنے آبائی ملک آسٹریا کے بہترین تعلیمی اداروں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی، 1884ء میں وہ امریکا پہنچے جہاں انہوں نے مشہور مؤجد تھامس ایڈیسن کی کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی، جہاں انہیں ڈائریکٹ کرنٹ (DC) جنریٹرز کو بہتر بنانے کا ٹاسک دیا گیا، جسے انہوں نے کئی ماہ تک دن رات کی انتھک محنت کے بعد مکمل کیا۔

تاہم اس ٹاسک کے اختتام پر برقی توانائی سے متعلق مختلف نقطۂ نظر کے سبب ٹیسلا اور ایڈیسن کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا۔

ایڈیسن ڈائریکٹ کرنٹ (DC) کو اچھا کہتے تھے جبکہ نکولا ٹیسلا الٹرنیٹ کرنٹ (AC) کو بہتر سمجھتے تھے۔

نکولا ٹیسلا کے مطابق الٹرنیٹ کرنٹ (اے سی) کو باآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے، اس لیے یہ بہتر ہے۔

انہوں نے ایڈیسن کے ڈی سی جنریٹرز کو ری ڈیزائن کرنے کی تجویز بھی پیش کی، تاہم ایڈیسن نے اسے مسترد کردیا۔

اس سب سے دل برداشتہ ہو کر بالآخر نکولا ٹیسلا نے ایڈیسن کی کمپنی چھوڑ کر مختلف کمپنیوں میں کام کیا۔

بعد ازاں نکولا ٹیسلا نے اپنی کمپنی ’ویسٹنگ ہاؤس الیکٹرک‘ کی بنیاد رکھی، ابتدائی طور پر اس کمپنی کو مالی مشکلات کا سامنا رہا لیکن پھر بالآخر نکولا ٹیسلا کو الٹرنیٹ کرنٹ کے لیے اپنی ریسرچ پر سرمایہ کاری کرنے والے انویسٹرز کا ساتھ مل گیا۔

یہ وہ دور تھا جب ویسٹنگ ہاؤس الیکٹرک اور ایڈیسن کی کمپنی کے درمیان بجلی کے سسٹم اے سی اور ڈی سی پر مشہور زمانہ جنگ چھڑ گئی جسے War of currents کہا جاتا ہے۔

ایڈیسن کے ڈائریکٹ کرنٹ سسٹم سے بجلی 100 گز سے زیادہ سفر نہیں کر سکتی تھی، یہ توانائی محض بلب روشن کرنے کے لیے کافی تھی۔

بالآخر 1895ء میں نکولا ٹیسلا پہلا ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ لگانے میں کامیاب ہو گیا، جس نے دنیا کو حیران کر دیا۔

اس طرح نکولا ٹیسلا کا اے سی سسٹم طویل فاصلے تک ہائی وولٹیج ہائی فریکوئنسی کرنٹ پہنچانے کی صلاحیت کی وجہ سے کامیاب رہا، یہی سسٹم دنیا میں رائج ہوا اور آج بھی یہی رائج ہے۔

یوں بجلی سے صرف ایک بلب جلانے کے بجائے اس کی ہزاروں میل دور ترسیل ممکن ہوئی اور گھروں اور انڈسٹریز میں مشینیں چلانا بھی ممکن ہو گیا، جس سے ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں نکولا ٹیسلا کی ایجادات کا دائرہ وسیع ہے، ٹیسلا کوائل، ریڈیو ویوز اور انڈکشن موٹر بھی اُن ہی کی ایجاد ہے، ان میں سے ہر ایک ایجاد نے جدید الیکٹریکل انجینئرنگ اور کمیونکیشن کی بنیاد رکھی۔

نکولا ٹیسلا صرف ایک مؤجد نہیں بلکہ ایک دور اندیش انسان بھی تھے، انہوں نے ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھا جہاں توانائی کو تار کے بغیر (وائرلیس) منتقل کیا جا سکے گا۔

انہوں نے انٹر نیٹ، وائرلیس کمیونیکیشن اور روبوٹکس جیسی کئی ٹیکنالوجیز کے ابتدائی ورژن کا تصور بھی پیش کیا جو آج ہم استعمال کرتے ہیں۔

ایکس رے، ریڈار، ریموٹ کنٹرول، ارتھ ریزوننس ٹیکنالوجی، لیزر گن ٹیکنالوجی، جدید الیکٹرک موٹر اور اسی طرح کے بے شمار آلات اور ٹیکنالوجیز کا تصور نیکولا ٹیسلا نے ہی پیش کیا تھا۔

نیکولا ٹیسلا کی زندگی شاندار ایجادات اور حیرت انگیز تصورات سے بھرپور تھی، ان کا کام ناصرف آج بلکہ مستقبل میں بھی ہماری رہنمائی کرتا رہے گا۔ 

لہٰذا اگلی بار جب آپ لائٹ آن کریں یا کوئی وائرلیس ڈیوائس استعمال کریں تو نیکولا ٹیسلا کو ضرور یاد رکھیے گا۔ 

سائنس کے میدان میں نکولا ٹیسلا کی خدمات کے اعتراف میں اقوامِ متحدہ 10 جولائی کو ’ٹیسلا ڈے‘ کے نام سے موسوم کر چکی ہے۔

سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید