• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت، ملیالم فلم انڈسٹری میں خواتین کے جنسی استحصال کا انکشاف

کراچی ( رفیق مانگٹ ) بھارتی ریاست کیرالہ کی ملیالم فلم انڈسٹری میں خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور جنسی استحصال کی جسٹس ہیما کمیٹی کی 233صفحات پر مشتمل دستاویز نے انڈیا کو سکتے میں ڈال دیا ہے، رپورٹ کے مطابق فلم انڈسٹری میں امتیاز ی سلوک اورجنسی ہراساں کا کلچر عام ، کاسٹ کیلئے خواتین سے جنسی خواہشات کا مطالبہ ، نشے میں دھت مرداداکاروں کا خواتین کے کمروں میں زبردستی گھسنا معمول، اداکاراؤں کو سمجھوتے کے تحت جنسی تعلقات کیلئے دستیاب رہنے کی ہدایت دی جاتی ہے، بااثر اداکاروں اور پروڈیوسروں کا مافیا پوری صنعت کواپنی طاقت سے چلاتا ہے، آواز اٹھانے والے کا نام انڈسٹری سے مٹادیا جاتا ہے ، جسٹس ہیما کمیٹی کی رپورٹ 5سال تاخیر سے جاری کی گئی ، سوالات اٹھ گئے۔ رپورٹ میں ایسی خوفناک داستان سامنے آئی ہے کہ ہرطقبہ سراپا احتجاج ہے اور اسے ایک گھناؤنی فرد جرم قرار دے رہا ہے۔ کانگریس نے رپورٹ میں نامزد مجرموں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جسٹس ہیما رپورٹ میں لکھتی ہیں،جنسی ہراساں کا کلچر ملیالم فلم انڈسٹری میں عام ہے۔کاسٹنگ کاؤچ (جس میں طاقتور مرد فلموں میں مواقع کے بدلے خواتین سے جنسی خواہشات کا مطالبہ کرتے ہیں) کی موجودگی، کام کی جگہ پر مردوں کے بار بارمشتعل اور بیہودہ تبصرے، اور نشے میں دھت مرد شریک اداکار خواتین کے کمروں میں زبردستی گھسنا بھی معمول ہے۔ بدلے کا خوف جنسی ہراسانی کی اطلاع دینے سے روکتا ہے۔انڈسٹری میں کام کرنے والی خواتین سمجھوتہ اور ایڈجسٹمنٹ جیسی اصطلاحات سے مانوس ہیں اور انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ جنسی تعلقات کے لیے خود کو دستیاب رکھیں۔ خوف کا احساس قائم ہے،کمیٹی کے سامنے بہت سے ایسی چیزوں کو ظاہر کرنے سے ڈرتے تھے جن کا انہوں نے تجربہ کیا۔انتقام کے علاوہ،سائبر ہراسمنٹ کاخوف بھی ہے،زہریلے فین کلبوں سے، جن کے ذریعے خواتین کو خاموشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بااثر اداکاروں اور پروڈیوسروں کا مافیا پوری صنعت کواپنی طاقت سے چلاتا ہے۔’’کوئی بھی مرد یا عورت ایسا لفظ کہنے کی جرات نہیں کرتا جس سے طاقت کے گروپ سے تعلق رکھنے والوں کو تکلیف پہنچتی ہو،ورنہ ایسا شخص طاقتور لابی کے ذریعے صنعت سے مٹادیا جاتا ہے۔ انڈسٹری خواتین کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں بھی ناکام ہے، بشمول بیت الخلاء اور سیٹ پر چینج رومز کی کمی۔فلم سیٹس پر خواتین عملہ کھلی جگہوں یا مشترکہ باتھ رومز کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔معاوضے کے حوالے سے صنفی برابری کا فقدان بنیادی طور پر تحریری معاہدوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے۔جسٹس ہیما کمیٹی کی تشکیل کی وجہ؟ 17 فروری 2017 کو ملیالم فلموں کی معروف اداکارہ کو ایک گینگ نے ان کی کار میں اغوا کیا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعد میں ایک نامور اداکار بھی اس کیس میں ملوث پائے گئےجس نے پورے کیرالہ میں غم و غصے کو جنم دیا، اور ملیالم فلم انڈسٹری میں خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو موضوع بحث بنایا۔ واقعے کے ردعمل میں خواتین اداکاروں، پروڈیوسروں، ہدایت کاروں اور تکنیکی ماہرین پر مشتمل ’دی ویمن ان سنیما کلیکٹو‘ تشکیل دی گئی ۔ 18 مئی 2017 کو اس نے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ سے اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔جولائی میں، ریاستی حکومت نے ملیالم فلم انڈسٹری میں جنسی ہراسانی اورصنفی عدم مساوات کے مسائل کو دیکھنے کے لیے کیرالہ ہائی کورٹ کی ایک ریٹائرڈ جج جسٹس کے ہیما کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ صنعت کی متعدد خواتین سے بات کے بعد، کمیٹی نے دسمبر 2019 میں کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین کو 295 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے اجراء میں تاخیر کی وجہ؟ جسٹس ہیما کمیٹی کی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کیے جانے کے ساڑھے چار سال بعد کیرالہ حکومت نے19 اگست کو جاری کی۔ کئی لوگوں نے ہیما کمیٹی کی رپورٹ کے اجراء میں تاخیر پر تنقید کی ۔
اہم خبریں سے مزید