• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدارتی انتخابات پہلی غیر سفید فام خاتون نام زدگی

اگست کے تیسرے ہفتے میں امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن ہوا، جس میں کمیلا ہیرس کو باقاعدہ طور پر صدارتی اُمیدوار نام زَد کیا گیا۔بھارتی نژاد کمیلا ہیرس، امریکا کی پہلی غیر سفید فام خاتون ہیں، جنہیں صدارتی مقابلے کے لیے نام زَد کیا گیا ہے۔ قبل ازیں، جوبائیڈن صحت کے مسائل کی وجہ سے صدارتی دوڑ سے پیچھے ہٹ گئے تھے، لیکن جاتے جاتے اپنی نائب صدر کو اِس عُہدے کے لیے سپورٹ کرنے کا اعلان کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ’’ اِس وقت کمیلا سے بہتر اُمیدوار کوئی نہیں۔‘‘پھر ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی اُن کے اعلان کا بھرپور خیرمقدم کیا اور تقریباً پوری پارٹی نے اس فیصلے کو سپورٹ کیا۔ 

یہ پہلی دفعہ نہیں کہ ڈیمو کریٹک پارٹی نے کسی خاتون کو صدارتی عُہدے کے لیے نام زد کیا ہے۔ اِس سے قبل ہلیری کلنٹن کو میدان میں اُتارا گیا تھا، مگر وہ سفید فام تھیں۔ اُن کا مقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوا، لیکن وہ ہار گئیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ اِسی پارٹی سے امریکا کی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر، باراک اوباما بھی منتخب ہوئے۔دونوں خواتین اُمیدواروں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں صدارتی عُہدے کی اہل قرار پانے سے قبل اعلیٰ سرکاری عُہدوں پر فائز رہیں۔ہلیری کلنٹن، صدر اوباما کی سیکریٹری آف اسٹیٹ تھیں، جو امریکا میں صدر کے بعد سب سے طاقت ور عُہدہ مانا جاتا ہے۔ 

ویسے اُنہیں یہ ایڈوانٹیج بھی حاصل تھا کہ وہ بل کلنٹن جیسے مقبول صدر کی اہلیہ تھیں۔ امریکی پاور فُل میڈیا نے اُن کی غیر معمولی مدد اور اُن کے حریف کی شدید ترین مخالفت کی۔ اس کا بس چلتا، تو وہ کبھی بھی ٹرمپ کو صدر نہ بننے دیتا۔ لیکن امریکا میں سیاسی ہواؤں کا رُخ بدل چُکا تھا اور ایک انتہائی غیر روایتی امیدوار، ایک بہت بڑا بزنس مین، ڈونلڈ ٹرمپ مُلکی سیاست میں داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکا کی لبرل سیاست کو قوم پرستی میں بدل دیا۔ کمیلا ہیرس کی نام زَدگی سے قبل یہ بات عام تھی کہ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر اپنا کرشمہ دِکھانے میں کام یاب رہیں گے۔

رائے عامّہ کے پولز سے لے کر اُن کے شدید ناقدین تک، یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ وائٹ ہاؤس کی حکم رانی اُن ہی کے حصّے میں آئے گی۔اس میں جہاں ٹرمپ کا کمال تھا کہ وہ اپنی ری پبلکن پارٹی اور اپنے سپورٹرز کو یک جا رکھنے میں کام یاب ہوئے، وہیں صدر جوبائیڈن کی گرتی صحت نے بھی اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر پہلی صدارتی ڈیبیٹ میں اُن کی پُرفارمینس اِتنی خراب تھی کہ خود اُن کی ڈیمو کریٹک پارٹی کے طاقت وَر حلقوں نے اُن سے دوڑ سے باہر ہونے کا مطالبہ کیا اور بالآخر اُنہیں ایسا ہی کرنا پڑا۔ 

گو کہ اُنہوں نے کہا تھا کہ صرف خدا ہی اُنہیں دست بردار ہونے پر مجبور کرسکتا ہے۔امریکا میں خارجہ امور اہم ہیں، یہ صدارتی الیکشن پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں، جیسے اوباما کے الیکشن میں عراق وار کے معاملات نے اہم کردار ادا کیا، لیکن فیصلہ ہمیشہ اندرونی صُورتِ حال ہی پر ہوتا ہے۔ڈیموکریٹک پارٹی میں جو شدید مایوسی کی فضا تھی، کمیلا ہیرس کے اُمیدوار نام زَد ہونے کے بعد وہ کم ضرور ہوئی، تاہم اُن کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ عوام ہی کے پاس ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا جوبائیڈن کے چار سالہ دَور میں،جس میں کمیلا اُن کی نائب صدر ہیں، ڈیموکریٹک پارٹی عوام کی اُمیدوں پر پوری اُتر سکی؟ اِس سوال کا جواب کمیلا کو اپنی دو ماہ کی صدارتی مہم میں دینا ہوگا۔ یہ مہم نومبر کے پہلے منگل کو ختم ہوگی، جس دن صدارتی الیکشن کے لیے پولنگ ہوگی۔

کمیلا ہیرس نے اپنی نام زَدگی کے بعد خطاب میں اِس امر پر زیادہ زور دیا کہ وہ رنگ دار امریکن ہیں۔ وہ وہیں پیدا ہوئیں، تعلیم حاصل کی اور سیاست میں حصّہ لیتے ہوئے مُلک کے دوسرے بڑے عُہدے تک پہنچیں، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ کمیلا بھارتی نژاد امریکن ہیں، جو اُن کے پورے نام ہی سے ظاہر ہے، کمیلا دیوی ہیرس۔اُن کی والدہ کا تعلق بھارت سے تھا اور وہ 19سال کی عُمر میں 1959ء میں بائیولوجی کی تعلیم حاصل کرنے امریکا آئیں اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔

اُنھوں نے سیاہ فام، ڈونلڈ ہیرس سے شادی کی، جو یونی ورسٹی پروفیسر تھے اور کمیلا اُنہی کی صاحب زادی ہیں۔ اُن کی ایک اور بہن بھی ہیں، جب کہ کمیلا کے شوہر ایک یہودی وکیل ہیں۔ یاد رہے، کمیلا کی والدہ کی اپنے شوہر سے علیٰحدگی ہوگئی تھی۔ سو، کمیلا کی تمام تر تعلیم و تربیت والدہ ہی کے ذمّے رہی، جو خود بھی ایک یونی ورسٹی میں پروفیسر تھیں۔ کمیلا نے اپنے طالبِ علمی کے دَور ہی سے اسٹوڈنٹ ایکٹیویسٹ کے طور پر سیاست میں حصّہ لیا۔

فارغ التحصیل ہونے کے بعد ڈیمو کریٹک پارٹی میں شامل ہوئیں اور مختلف سیاسی و سرکاری عُہدوں پر فائز رہیں، جن میں اٹارنی اور کیلی فورنیا سے سینیٹرشپ شامل ہے۔ 59 سالہ کمیلا ہیرس اِس سے قبل 2019ء میں صدارتی نام زَدگی کی اُمیدوار تھیں، لیکن اُنہیں مقابلہ شروع ہونے سے قبل ہی دست بردار ہونا پڑا۔بعدازاں جوبائیڈن نے اُنہیں اپنا نائب صدر چُنا۔ اُن کے ناقدین آج اس دست برداری کو بار بار دُہراتے ہیں۔ 

صدر جوبائیڈن کی انتخابات سے دست برداری سے پہلے امریکی سیاسی و عوامی حلقوں میں یہ بحث عام تھی کہ دونوں صدارتی اُمیدوار یعنی جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ، پیرانہ سالی کا شکار ہیں۔ جوبائیڈن چوں کہ 82 سال کے ہیں، تو دست برداری کے ضمن میں اُن کی صحت کے مسائل ہی پر زیادہ فوکس رہا۔نہ صرف عام امریکیوں نے، بلکہ خود اُن کی پارٹی میں یہ سوال بڑی شدّومد سے اُٹھایا گیا کہ ایک ایسا شخص جو صدارتی ٹی وی ڈیبیٹ میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے ہکلائے یا سلپ آف ٹنگ کا شکار ہو، کیسے دنیا کی واحد سُپر پاور کی قیادت کرسکتا ہے۔ 

کمیلا ہیرس کی نسبتاً کم عُمری کا فیکٹر اُن کے حق میں جارہا ہے اور اُن کی مہم میں اسے زور شور سے استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔اُن کے حامی کہتے ہیں کہ وہ امریکا کو ایک بہتر اور توانائی سے بھرپور قیادت فراہم کرنے کی اہل ہیں اور مُلک کو اِس وقت اس کی سخت ضرورت بھی ہے۔ لیکن دوسری طرف، ٹرمپ کی پُرفارمینس اس ضمن میں اپنی عُمر کے باوجود شان دار ہے۔ وہ اب بھی آگے بڑھ بڑھ کر اپنے حریف پر سیاسی حملے کر رہے ہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ اُن کی ری پبلکن پارٹی اور اُن کے سخت گیر سپورٹر اِس امر پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ وہی امریکا کو بہترین قیادت فراہم کرسکتے ہیں، خاص طور پر گولی لگنے کے بعد وہ جس طرح فوراً کھڑے ہوئے، اس سے اُن کی جرأت و بہادری، عزم و حوصلے کا تاثر گہرا ہوا۔اُن کے ووٹرز سمجھتے ہیں کہ تارکینِ وطن جیسے اندرونی مسائل ہوں یا غزہ، یوکرین جنگ، چین سے اقتصادی مقابلے اور پیوٹن کی سخت گیری کے معاملات ، وہی سب کو ٹکر دے سکتے ہیں۔

اُن کے سپورٹر بڑے جوشیلے انداز میں اُن کے پہلے دَور کی کام یابیاں گنواتے ہیں، جس میں اُن کا پہلا استدلال یہ ہے کہ اُن کے دَور میں دنیا پُرامن رہی۔کوئی جنگ نہیں ہوئی اور اُنہوں نے امریکا کی فوجی طاقت کو کہیں کمٹ نہیں کیا اور اگر ایک دو واقعات ہوئے بھی، تو اپنی قوّت کا زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ کورونا کے دَور کو بڑے بہتر طریقے سے گزارا گیا۔ عوام کو بڑے بڑے بیل آؤٹ پیکجز دیئے گئے اور ایک سال میں اس کے توڑ کی ویکسین بھی دریافت کر لی گئی۔

امریکا اور مغربی دنیا میں غیر قانونی تارکینِ وطن کا مسئلہ بہت اہمیت اختیار کرچُکا ہے اور یاد رہے کہ اسے ٹرمپ نے اپنی گزشتہ صدارتی مہم میں پہلی بار بڑے پُرزور طریقے سے اُٹھایا اور استعمال کیا تھا۔اُن کی دو باتیں بہت مشہور ہوئیں۔ اوّل، میکسیکو بارڈر پر دیوار کھڑی کر کے وہاں سے آنے والوں کو روکیں گے۔ دوم، کچھ مسلم ممالک سے آنے والوں پر پابندی عاید کریں گے۔ اُن کی تارکینِ وطن سے نفرت دنیا بَھر میں مشہور ہوئی، جس پر خوب تنقید بھی ہوئی، لیکن وہ ڈٹے رہے اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔

اُس وقت میڈیا نے اس پالیسی کی سخت مخالفت کی اور انہیں نسل پرست سفید فام مسلم دشمن کہا۔ الزام لگایا گیا کہ وہ معاشرے میں تفریق کا باعث بن رہے ہیں، لیکن گزشہ چار سال میں مغربی ممالک میں امیگرینٹس کا مسئلہ شدّت اختیار کرتا گیا اور جس تعداد میں قوم پرست اور اینٹی امیگرینٹس پارٹیز یورپ میں اقتدار میں آرہی ہیں، اس امر نے اُن کے موقف کو مزید توانائی دے دی ہے۔ 

برطانیہ، جرمنی، فرانس میں چاقو زنی کے جو واقعات تسلسل سے ہورہے ہیں اور جن میں تارکینِ وطن پر الزام ہے کہ وہ ان کارروائیوں میں ملوّث ہیں، تو اس صورتِ حال نے بھی رائٹ ونگ پارٹیز کو بہت تقویّت پہنچائی ہے۔ اِسی تناظر میں برطانیہ کے نسلی فسادات اور حال ہی میں جرمنی کے تارکینِ وطن کے خلاف سخت اقدامات کو دیکھا جا رہا ہے۔ 

جب کہکمیلا ہیرس کا ریکارڈ اِس سلسلے میں کچھ خاص متاثر کُن نہیں۔اُنھیں بائیڈن دَور میں میکسیکو سے غیرقانونی طور پر آنے والوں کے معاملات دیکھنے کا کام سونپا گیا تھا، لیکن وہ اس حوالے سے کچھ زیادہ اچھی کارکردگی نہ دکھا سکیں اور ٹرمپ اور ان کی پارٹی اس کم زوری کو بڑے مؤثر انداز میں استعمال کر رہی ہے۔

اِس وقت دنیا میں دو جنگیں اہمیت حاصل کرچُکی ہیں اور دونوں ہی میں امریکا مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔یوکرین کی جنگ میں وہ کُھل کر صدر ذیلنسکی کو سپورٹ کر رہا ہے اور جدید ہتھیاروں سے لیس بھی۔ اِسی لیے دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود یوکرین نے زبردست مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ ٹرمپ کا اِس معاملے میں موقف یہی ہے کہ یورپ کی لڑائیاں خود یورپ کو لڑنی چاہئیں اور وہ یہ مطالبہ بھی بار بار کرچُکے ہیں کہ یورپی ممالک، نیٹو میں اپنا مالیاتی حصّہ بڑھائیں۔

دوسری غزہ کی لڑائی ہے، جسے تقریباً دس ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن اسرائیل کی بے گناہ شہریوں پر بم باری جاری ہے۔غزہ میں معصوم لوگوں کے قتلِ عام پر پوری دنیا میں سخت مذمّت ہو رہی ہے، لیکن امریکا بھرپور طریقے سے اسرائیلی جارحیت کے ساتھ کھڑا ہے۔ کمیلا ہیرس یقیناً جوبائیڈن ہی کی پیروی کریں گی، گو کہ اُن کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا وقت آگیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اسرائیل کی بھرپور حمایت بھی کرتی ہیں، کیوں کہ یہ امریکی اسٹیٹ پالیسی ہے اور اس سے انحراف کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے لیے اِس مرحلے پر ممکن نہیں۔ 

ٹرمپ، ایران کے سخت مخالف ہیں، اُنہی کے زمانے میں امریکا نیوکلیئر ڈیل سے نکلا اور پھر آج تک کوئی مذکرات ہوئے اور نہ کوئی لچک دِکھائی گئی۔گو، ایران کے نومنتخب صدر کا کہنا ہے کہ ایران کو اپنے اقتصادی مفادات کی خاطر مغرب سے تعلقات بہتر کرنے چاہئیں۔ یقیناً اُن کا اشارہ امریکا کی طرف ہے۔ تاہم، حال ہی میں ایرانی سپورٹڈ ملیشیاؤں کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں جو حملے کیے گئے، اس سے ٹرمپ کے موقف میں سختی آسکتی ہے۔

پاکستان کے لیے امریکی انتخابات اور وہاں آنے والی حکومتیں ہمیشہ اہمی کی حامل رہی ہیں اور اِس مرتبہ تو یہ انتخابات اِس لیے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ ایک طرف بھارتی نژاد امریکن، کمیلا ہیرس ہیں، تو دوسری طرف، مسلم تارکینِ وطن کے دشمن، ٹرمپ۔ کمیلا نے خود کو امریکن کہا، لیکن کبھی بھی بھارتی وراثت پر فخر سے انکار نہیں کیا۔وہ بڑے افتخار سے ہمیشہ اُس زمانے کا ذکر کرتی ہیں، جب اُنہوں نے کچھ عرصہ بھارت میں والدہ کے خاندان کے ساتھ گزارا تھا۔

نیز، بھارت میں بھی اُن کی نام زدگی کو بڑی فتح کے طور پر دیکھا گیا کہ اُن کی دوسری جنریشن کی اولاد آج امریکی صدارت کی اُمیدوار ہے، اُس امریکا کی، جو دنیا کے اہم فیصلے کرتا ہے۔اِس سے قبل برطانیہ میں، جو مغربی بلاک کا ایک طاقت ور مُلک ہے، بھارتی نژاد سیاست دان، رشی سوناک وزیرِ اعظم بنے تھے۔ کمیلا کی نام زدگی پاکستانیوں کے لیے تشویش کی بات نہیں، کیوں کہ امریکن پالیسیز شخصیات یا کلٹ کے گرد نہیں گھومتیں، بلکہ وسیع تر مفادات کے گرد گھومتی اور بنتی ہیں، جن میں عوام اوّلیت رکھتے ہیں۔

لیکن یہ بات ضرور سوچنے کی ہے کہ پاکستان اور اُس کے عوام کے امریکا کے ساتھ تعلقات شروع ہی سے بہت اچھے رہے، بلکہ بھارت کے مقابلے میں ہم امریکا سے کہیں زیادہ نزدیک رہے۔ ہمارے مالیاتی، دفاعی اور اقتصادی معاملات میں امریکا کا بڑا دخل رہا۔ پاکستانی طلبہ کو وہاں تعلیم حاصل کرنے کی خصوصی رعایت حاصل رہی، ہمیںF-16 جیسے جدید لڑاکا طیارے ملے۔آج بھی پاکستانی نوجوان قطاریں لگا کر امریکا جانے کو تیار بلکہ بے قرار رہتے ہیں، لیکن پھر بھی کوئی پاکستانی امریکا میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکا، جو آج ایک بھارتی نژاد امریکن کو حاصل ہے۔ 

امریکی ملٹی نیشنل کمپنیز، خاص طور پر سوشل میڈیا کمپنیز میں بھارتی ٹاپ عُہدوں پر فائز ہیں۔کیا کبھی ہمارے پالیسی سازوں اور عوام نے سوچا کہ ہم امریکا کے قریب ترین حلیف ہونے کے باوجود اس سے کسی بھی میدان میں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھا سکے، اُلٹا ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں امریکا کوئی ایسا اقدام نہ کرے، جس سے ہمیں نقصان پہنچ جائے۔کمیلا ہیرس کا صدارتی ریس میں شامل ہونا پاکستانیوں کو سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے مُلک کی جگ ہنسائی کروا کے کس حد تک ا چکے ہیں۔

پاکستانی امریکن، جو پانچ لاکھ سے زیادہ ہیں، اپنے ہی مُلک کے خلاف کلٹ کی سیاست میں بہہ کر امریکی ایوانوں میں کروڑوں ڈالر پھینک کر اپنے وطن کے خلاف قراردیں منظور کرواتے اور خوشی سے بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ اب ذرا دوسری طرف نگاہ ڈالیں، تو ڈونلڈ ٹرمپ کو تو پہلے ہی پاکستانی، مسلم دشمن اور تارکینِ وطن کا بدترین مخالف گردانتے ہیں۔ یعنی قصّہ مختصر، اِس صدارتی مہم میں پاکستانیوں کے لیے جذباتی طور پر اگر ایک طرف کھائی ہے، تو دوسری طرف کنواں۔