• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مخصوص نشستوں کے فیصلے میں جسٹس امین، جسٹس نعیم نے جو لکھا وہ انہیں زیب نہیں دیتا: تفصیلی فیصلہ

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی ججوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔

تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے انتخاب لڑنے کے قانونی و آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا، آئین یا قانون سیاسی جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ تحریک انصاف نے 2024ء کے عام انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتی یا حاصل کیں، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے 80 میں سے 39 ایم این ایز کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا، الیکشن کمیشن کو کہا وہ باقی 41 ایم این ایز کے 15روز کے اندر دستخط شدہ بیان لیں۔

تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حق دار ہے

فیصلے میں کہا گیا کہ عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حق دار ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جز ہے، جمہوریت کا اختیار عوام کے پاس ہے۔

عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ بنانے کا اختیار دیتا ہے، بھاری دل سے بتاتے ہیں دو ساتھی جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، ساتھی ججز کے 3 اگست کے اختلافی نوٹ سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے مناسب نہیں، ان ججز نے کہا کہ ہمارا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ہے، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے، بطور بینچ ممبران وہ قانونی طور پر حقائق اور قانون سے اختلاف کر سکتے ہیں، ساتھی ججز مختلف رائے دے سکتے ہیں۔

جس طریقے سے دو ججز نے اختلاف کیا وہ غیر شائستہ ہے

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ساتھی ججز دوسرے کی رائے پر کمنٹس بھی دے سکتے ہیں، رائے دینے کے لیے وہ وجوہات بھی دیں کہ دوسرے ججز کی رائے میں کیا غلط ہے، جس طریقے سے دو ججز نے اختلاف کیا وہ غیر شائستہ ہے، جس طریقے سے جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے اپنے فیصلے میں جو لکھا وہ انہیں زیب نہیں دیتا، انہوں نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن فروری 2024ء میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا، زیادہ پریشان کن یہ بات ہے کہ ججز اپنی رائے دیتے ہوئے حدود سے تجاوز کر گئے، دو ججز نے 80 کامیاب امیدواروں کو وارننگ دی، دو ججز نے الیکشن کمیشن کو کہا 13 رکنی فل کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی تعمیل نہ کریں، عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں، ایسی رائے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہے، دو ججز کا یہ عمل عدالتی کارروائی اور فراہمی انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عوام کے پاس گورننس کرنے کا اختیار ان کے منتخب کردہ امیدوران سے ہے، انتخابات کے عمل میں تمام اتھارٹیز کو شفافیت عملی طور پر اپنانا چاہیے، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ پارلیمانی جمہوریت اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ ہے کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے پر انہیں ووٹ دیا، پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔

عدالتیں سیاسی مفاد اور تعصب سے بالاتر ہوں

سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن تنازعات حل کرنے میں عدالتوں کی بنیادی ذمے داری ووٹرز کے حقوق کا تحفظ ہے، عدالتوں نے یقینی بنانا ہے عوام کے ووٹوں سے منتخب افراد شفافیت کے تحت اپنی ذمے داری سنبھالیں، عدالتیں سیاسی مفاد اور تعصب سے بالاتر ہوں، عدالتیں ووٹرز کے مفاد کے تحفظ میں قانونی معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کریں، تفصیلی فیصلہ

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ بطور اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے کہ وہ ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کرے اور ووٹرز کے حق نمائندگی پر سمجھوتہ نہ کیا جائے، سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کرنا تھا کس جماعت کو کتنی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں، ان نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد افراد کا انفرادی حق نہیں ہوتا، الیکشن تنازعات کی نوعیت اور عدالتوں کی ذمے داری کا معاملہ پارٹی وکلاء نے دلائل میں نہیں اٹھایا۔

انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں

فیصلے میں کہا گیا کہ 11 رکنی بینچ اس قانونی پوزیشن سے آگاہ تھا، بینچ نے ان قانونی نکات اور حقائق کی انکوائری کی جو پشاور ہائی کورٹ میں نہیں دی گئیں، 11 رکنی بینچ میں کچھ معاملات میں ریلیف دینے پر اتفاق نہیں بھی تھا، الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، الیکشن کمیشن کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے، انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کی نمایاں غلطیوں کے باعث عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دینا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے، سپریم کورٹ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن ہی نہ ہوتا، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکمنامے میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے، عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں، انتخابی نشان واپس لیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہو گئے، رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017ء سے متصادم ہے، رول 94 مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو، رول 94 کی وضاحت میں لکھا ہے سیاسی جماعت وہ تصور ہو گی جس کے پاس انتخابی نشان ہو، رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51 (6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی نشان کے لیے نااہل قرار دینے کا واحد نتیجہ یہ ہے کہ جماعت کو انتخابی نشان نہیں دیا جائے گا، اس کے علاوہ سیاسی جماعت کے دیگر آئینی اور قانونی حقوق متاثر نہیں ہوں گے، ایسا انتخابی قانون جو سیاسی جماعتوں کا انتخابات میں حصہ لینے کا حق تسلیم نہیں کرتا آئین کے آرٹیکل 17(2) کے منافی ہے،  سیاسی جماعت کو ان کی سرگرمیوں سے محروم کرنا اس کی سیاسی موجودگی کو تباہ کرنا ہے۔

سیاسی جماعت کو سرگرمیوں سے محروم کرنا عملی تحلیل کے مترادف ہے

عدالت کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت کو سرگرمیوں سے محروم کرنا اس کی سیاسی تباہی اور عملی تحلیل کے مترادف ہے، ‎آئین کے آرٹیکل17 (2) کے تحت سیاسی جماعت بنانے یا اس کا رکن بننے کا حق ضمانت یافتہ ہے، کسی سیاسی جماعت کی تشکیل میں اس کا کام کرنا شامل ہوتا ہے، بغیر کام کرنے کے حق کے سیاسی جماعت بنانے کا حق بے معنی اور بے فائدہ ہو گا، الیکشن حکام کا غیرقانونی طور پر بڑی سیاسی جماعت کو نہ ماننا ادارے کی حیثیت کم کرتا ہے، الیکشن ایکٹ کا رول 94 الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 (5) کے دائرہ کار سے تجاوز ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا رول 94 آئین کے آرٹیکلز 51 (6) (د) اور (ہ) اور 106 (3) (ج) کے منافی ہے، الیکشن ایکٹ کا رول 94 الیکشن ایکٹ اور آئین کے خلاف قرار دیا جاتا ہے، لہٰذا الیکشن ایکٹ کا رول 94 کالعدم اور غیر مؤثر ہے، عام طور پر عدالت میں یہ ہوتا ہے کہ پہلے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتی پھر ریلیف دیتی ہے، عدالت اس طریقہ کار میں اس وقت نہیں پڑتی جب عوام کے ووٹ کا تحفظ کا معاملہ ہو، عدالت اس طریقہ کار میں اس وقت نہیں پڑتی جب آرٹیکل 17 کی شق دو اور آرٹیکل 19 کا معاملہ ہو، ایسے وقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا سامنے سنی اتحاد کونسل تھی، پی ٹی آئی یا کوئی اور جماعت، عدالت مکمل انصاف کی طرف جاتی ہے تو رائج طریقہ کار یا پریکٹس کے سبب بے یار و مددگار نہیں ہوتی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت انصاف کی طرف جاتی ہے تو یہ انخصار نہیں کیا جاتا کہ کسی سیاسی جماعت کی درخواست آئی تھی، پی ٹی آئی کو جسے اس مقدمے میں ریلیف دیا گیا ہے، ہمارے سامنے ایک درخواست کے ساتھ آئی تھی، پی ٹی آئی اس درخواست کے ساتھ آئی ہے کہ اسے اس مقدمے میں فریق بنایا جائے، عام سول مقدمات کے طریقہ کار کے مطابق فریق بننے کی درخواست پہلے طے کی جاتی ہے اور  درخواست دہندہ کو رسمی طور پر فریق بنایا جاتا ہے، یہ ایک عام سول مقدمہ نہیں ہے بلکہ اعلیٰ ترین نوعیت کا ایک تنازع ہے، پی ٹی آئی کی درخواست کو پہلے قبول پھر ریلیف دینے کی رسمی کارروائی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، عوام کے حقِ رائے دہی کا تحفظ آرٹیکل 17 (2) اور 19 کے تحت ضمانت یافتہ ہے، عدالت 187 کے تحت مکمل انصاف دیتے ہوئے کسی تکنیکی یا عملی اصول یا طریقہ کار کی پابند نہیں، سیاسی جماعت بنانے کا حق اس کے کام کرنے اور آپریشن تک پھیلا ہوا ہے۔

تفصیلی فیصلےمیں انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم یا مسترد کرنے کا معاملہ طے

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات منظور یا نا منظور ہونے تک منتخب امیدوار پارٹی عہدیدار تصور ہوں گے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر الیکشن کمیشن کے اعتراض پر وضاحت فیصلے کا حصہ بنا دی، پیرا 58 میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر الیکشن کمیشن کے اعتراض کی وضاحت ہے، سیاسی جماعت کے عہدے داران الیکشن ایکٹ کی شق 208 کے تحت منتخب ہوتے ہیں، منتخب عہدے داران کا سرٹیفیکیٹ الیکشن ایکٹ کی شق 209 کے تحت دیا جاتا ہے، انٹرا پارٹی الیکشن کی الیکشن کمیشن سے نامنظوری پر پرانے عہدے دار بحال ہو جاتے ہیں۔

14 ستمبر کے وضاحتی آرڈر کو بھی فیصلے کا حصہ 

سپریم کورٹ نے 14 ستمبر کے وضاحتی آرڈر کو بھی فیصلے کا حصہ بناتے ہوئے کہا کہ وضاحتی آرڈر الیکشن کمیشن کی درخواست پر جاری کیا گیا، وضاحت اپنے ہی فیصلے کی کرنا تھی اس لیے فریقین کو نوٹس دینا ضروری نہیں تھا، جب الیکشن کمیشن غلطیاں کرے تو عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے، مکمل انصاف کے لیے عدالت کی طاقت جمہوریت کے تحفظ کے لیے اہم ہے، الیکٹورل انصاف کی عدم فراہمی جمہوریت کی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، انتخابی دیانتداری کو کمپرومائز کرنا جمیوریت کی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا، پی ٹی آئی نے بطور متبادل پی ٹی آئی نظریاتی سے ٹکٹس لینے کے لیے بندوبست کیا، اسی شام سربراہ پی ٹی آئی نظریاتی ٹی وی چینلز پر آئے اور ٹکٹس اجراء سے انکار کر دیا، الیکشن کمیشن نے اسی دن آر اوز کو کہا پی ٹی آئی نظریاتی کے پارٹی ٹکٹس قبول نہ کریں، کچھ امیدواروں کے ٹکٹس قبول ہوئے کچھ کے نہ ہو سکے، سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ رات تقریباً 11 بجے دیا، انٹرا پارٹی الیکشن کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی امیدواروں کے پارٹی ٹکٹس مسترد ہوئے، پی ٹی آئی امیدواروں کے پارٹی ٹکٹس مسترد ہوئے اور وہ امیدوار آزاد ہو گئے، 8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے قومی و صوبائی نشستوں پر لارج نمبر آف سیٹس جیتیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کامیاب امیدواروں کو آزاد قرار دے دیا گیا۔

مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو میں بھی جاری کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اردو ترجمہ کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کریں۔

قومی خبریں سے مزید