تحریر:ایم اسلم چغتائی… لندن
جس ملک کی پارلیمنٹ کو جمہوریت کی ماں اور جمہوریت کی جائے پیدائش کہا اور سمجھا جاتاہے جس ملک کے دفاعی نظام کو مثالی نظام سمجھا جاتا ہے جس ملک کی انگریزی زبان بین الاقوامی زبان ہے جس ملک کا سکہ پائونڈ دنیا پر راج کرتا ہے جس چھوٹے سے جزیرائی ملک نے آدھی دنیا پر حکومت کی اور کہا جاتا تھا کہ اس سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا جس ملک میں آنے اور بسنے کیلئے لوگ بے چین رہتے ہیں یہ ملک برطانیہ آج شدید سیاسی، معاشی، سماجی اور اندرونی مسائل کا شکار ہے۔ دائیں بازو جماعت کو عروج مل رہا ہے۔ برطانیہ میں سیاسی اور معاشی بحران کا آغاز 2016میں یورپین یونین میں رہنے کے حوالے سے ریفرنڈم کرانے اور اس کے نتائج کے بعدشروع ہوا۔ اس ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے 23 جون 2016 کو 28ممالک کی یورپین یونین کو چھوڑے جانے کا فیصلہ کیا۔ برطانیہ 1جنوری 1973سے اس یونین کا ممبر تھا اور اتنے طویل عرصے کے بعد اس بڑی اکنامک یونین سے نکلنا حکومت وقت دانشوروں اور سیاست دانوں کیلئے بڑا مشکل اور غیر متوقع تھا۔ عوام کی رائے کا احترام برطانیہ کی جمہوریت کا حسن ہے، برطانیہ کو یورپین یونین سے نکلنے کیلئے 4سال کا طویل عرصہ لگا اور آخرکار 31جنوری 2020کو برطانیہ کی یورپین کی ممبر شپ اختتام کو پہنچی۔ یورپی یونین سے باہر نکلنے کے بعد برطانوی معیشت پر منفی اثرات پڑنا شروع ہوگئے اور مہنگائی ہونا لازمی تھا لہٰذا بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئیں۔ اسی دوران دنیا بھر کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں لاکھوں انسان اس مہلک وائرس سے ہلاک ہوگئے صرف برطانیہ میں کورونا وائرس سے 25 لاکھ افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔کورونا وائرس سے پوری دنیا متاثر ہوئی انسانی جانی اموات کے علاوہ دنیا بھر کی معیشت پر برے اثرات پڑے مہنگائی بڑھی برطانیہ کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کر دیا جس کا آغاز 2016کے بعد ہو گیا تھا۔ روس یوکرین جنگ سے بھی برطانیہ متاثر ہوا ، بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں برطانیہ میں سیاسی بحران 2016میں اس وقت کے ٹوری پارٹی کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ریفرنڈم کے بعد استعفیٰ کے بعد شروع ہو گیا۔ 2016سے 2024تک ٹوری پارٹی کے آٹھ سالوں میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہوئے جس کی وجہ اس پارٹی کے اندر کابحران اور ناکامیاں تھیں۔ 2016 میں ڈیوڈ کیمرون کے استعفیٰ کے بعد 2016سے 2019 تک تھریسا مے 2019-2022تک بورس جانسن، 2022میں 45دن کے لئے الزبیتھ ٹرس وزیراعظم رہیں۔ 2022سے جولائی 2024الیکشن ہونے تک رشی سوناک وزیراعظم رہے۔ 2024کے جنرل الیکشن میں لیبر پارٹی کو تاریخی کامیابی ملی اور ٹوری پارٹی کو بدترین تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیبر پارٹی کو نالاں ٹوری پارٹی کے ووٹرز نے بھی ووٹ دیا۔ لیبر پارٹی کے نئے منتخب وزیراعظم کیئر سٹارمر نے پہلی تقریر میں ملک کو بنیادی طور پر مضبوط اور مستحکم کرنے کا اعادہ کیا۔نئی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی برطانیہ کے دائیں بازو کے نسل پرست افراد کی جانب ے نسلی فسادات مختلف شہروں میں شروع ہوگئے جو 30 جولائی سے لے کر 5 اگست تک جاری رہے ان فسادات میں ایک ہزار نسل پرست افراد کو گرفتار کیا گیا۔ برطانیہ کے شہر سٹاک پورٹ میں 29 جولائی کو تین معصوم بچیوں کو کسی نے دن دھاڑے قتل کردیا اور پھر دائیں بازو کے نسل پرستوں نے قاتل کو مسلمان ظاہر کرنا شروع کردیا اور اس خبر کو سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیلا دیا جس کے بعد یہ فسادات مسلمانوں کے خلاف شروع ہوگئے حالانکہ بعد میں ثابت ہوا کہ قاتل مسلمان نہیں تھا تشویشناک بات یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں دائیں بازو کی ریفارم پارٹی کو کثیر تعداد میں ووٹ پڑے ہیں اور یہ پارٹی غیر متوقع طور پر پارلیمنٹ کے اندر آج موجود ہے۔ معاشی، سیاسی بحران کے علاوہ حال ہی میں برطانیہ میں نسلی تعلقات پر بھی برا اثر پڑا ہے خاص طور پر مسلمان جن شہروں اور علاقوں میں اقلیت سے ہیں وہاں پر نسلی تعلقات زیادہ خراب ہیں اور مسلمان خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ ان پر حملے ہوتے ہیں ، برطانیہ دنیا میں ایک امن پسند معاشرہ اور بڑا محفوظ ملک سمجھتا جاتا رہا ہے مگر حالات بدل چکے ہیں اور لوگ ٹرینوں ، بسوں میں سفر پیدل چلتے ہیں اور اندھیرے میں سفر کرنے کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ 65سال سے زائد عمر کے افراد اکیلے سفکر کرنے سے کتراتے ہیں، چاقو کی وارداتیں اور حملے کثرت سے ہوتے ہیں جن میں برطانوی دارالحکومت لندن سرفہرست ہے۔ کئی لوگ برطانیہ چھوڑ کر ہجرت کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم نے غیر متوقع اور حیران کن تقریر میں کہا ہے کہ اس ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے سے پہلے مزید خراب ہو سکتے ہیں اور سخت فیصلے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سٹیٹ پینشن میں کٹوتی کا اعلان کیا ہے اور پینشنرز کو سردیوں کا الائونس بند کرنے کا بھی اعلان کیا ہے حالانکہ لیبر پارٹی وہ جماعت ہے جو اس ملک میں رفاعی اور ہیلتھ سروس کا نظام لائی تھی۔