لڑکپن میں ایک غزل مغنیہ بلقیس خانم کی زبانی سنی تھا، اس کا مطلع کچھ یوں تھا ’’وہ تو خوش بُو ہے ہوائوں میں بکھر جائے گا۔۔۔مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا۔‘‘ یہ شعر ہمیں آ ج کل نواز شریف اور ان کے حامیوں کی حالت دیکھ کر یاد آیا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل پیشِ خدمت ہے۔
پچھلے سال 21اکتوبر کو جب نواز شریف پاکستان واپس تشریف لائے اور مینارِ پاکستان کے سائے تلے ایک پر ہجوم جلسے سے خطاب کیا تو وہ ایک پرامید شخص دکھائی دیتے تھے، سب کچھ پسِ پشت ڈال کر آگے بڑھنے کیلئے تیار، ان کا لہجہ سیاسی حریفوں اور ہمسایہ مما لک کی طرف صلح آمیز تھا۔ فروری الیکشن کیلئے مسلم لیگ نون کا نعرہ تھا ’’پاکستان کو نواز دو۔‘‘مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان شدید کشیدگی کے پس منظر میں نواز شریف کے چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم پاکستان بننے کی راہ میں بہ ظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی تھی۔ لیگی راہ نما برملا دعویٰ کر رہے تھے کہ’ ان کی بات ہو چکی ہے۔‘ یہ وہ منظر تھا جو نواز شریف اور ان کے حامیوں کو سامنے نظر آ رہا تھا۔ مگر پھر ’’سانحہ‘‘ آٹھ فروری ہو گیا۔ نواز شریف اب بھی وزیرِ اعظم بن سکتے تھے مگر اُس صورت میں ان کی دخترِ نیک اختر پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ نہیں بن سکتی تھیں ( ایک کوٹہ سسٹم بہرحال شریف خاندان کے اندر بھی موجود ہے) تو نواز شریف پیچھے ہٹ گئے اور بیٹی کو آگے کر دیا۔
نواز شریف اب پہاڑوں میں رہتے ہیں، آخری دفعہ انہیں راوی اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کا جائزہ لیتے دیکھا گیا تھا۔ کچھ کچھ دن بعد خبر آتی ہے وہ سیاست میں متحرک ہونے والے ہیں، پھر خبر آ تی ہے کہ وہ علاج کیلئے لندن جانے والے ہیں، ان کے حامی اسی عالمِ بیم ورجا میں سانس لیتے ہیں۔ کیا نواز شریف کی سیاست سے ناگہانی رخصتی ان کی سیاست کا مقطع ہے؟ کچھ دن پہلے ہم نے میاں صاحب کے ایک معتمدِ خاص سے پوچھا کہ میاں صاحب سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ تو انہوں نے ترنت فرمایا کہ میاں صاحب پر آج کل مردم بے زاری طاری ہے اور وہ کسی سے کم کم ہی ملتے ہیں۔ نواز شریف کے ایک اور پرانے ساتھی کہتے ہیں کہ اب نواز شریف ہم لوگوں کو واٹس ایپ پر بھی میسر نہیں ہیں۔پارٹی صدارت سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے ایک آدھ پارٹی میٹنگ بھی کی مگر اس میں کئے گئے فیصلے کے باوجود میاں صاحب سیاست میں متحرک نہیں ہو سکے۔ یہ عمر اور صحت کا تقاضا ہے یا نواز شریف ہمت ہار بیٹھے ہیں؟
ہر سیاست دان کی ایک ’لیگے سی‘ ہوتی ہے جس میں اہم ترین نکتہ وہ ہوتا ہے جہاں وہ اپنا سیاسی سفر تمام کرتا ہے، اپنے پورٹریٹ کو فائنل ٹچ دیتا ہے، جو کوتاہیاں رہ گئی ہوتی ہیں انہیں سنوارتا سجاتا ہے، خود کو تاریخ کی عدالت میں پیش کرنے سے پہلے اپنا بہترین کیس تیار کرتا ہے ۔ یہ ہوتی ہے ’’سوان سانگ‘‘ کی اہمیت۔ نواز شریف کی ’’میراث‘‘ کیا ہے؟ ہمارے اکثر سیاست دانوں کی طرح نواز شریف بھی خاکی انگلی پکڑ کر مکتبِ سیاست میں داخل ہوئے لیکن 1993 میں انہوں نے ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کہہ کر اپنے نئے جمہوری سفر کا آغاز کیا،1997میں نواز شریف نے آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کیا جسے جمہوریت کی بڑی فتح قرار دیا گیا، 1999 میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور انہیں نذرِ زنداں کر دیا گیا۔ ان کی تیسری حکومت کو ثاقب نثار اور قمر باجوہ کی جوڑی نے ایک منظم سازش کے ذریعے زمیں بوس کیا اور نواز شریف کو جیل کی کال کوٹھڑی کے سپرد کر دیا۔ نواز شریف 1999 سے اس ملک میں جمہوری مزاحمت کا سب سے روشن استعارہ سمجھے جاتے ہیں، جنہیں اس صدی کے پہلے دو عشروں میں فقط ایک الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کا رسک لیا گیا۔ وہ ایک طویل عرصہ ( لگ بھگ پچیس سال ) پاکستان کے مقبول ترین سیاسی راہ نما رہے ہیں۔ لیکن 8فروری 2024ءکو ان کا یہ اعزاز چھن گیا۔ ربع صدی کے بعد ان کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ شناخت دھندلا گئی، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بے صدا ہو گیا، اور مسلم لیگ نون نے مقتدرہ کی واضح حمایت سے شہرِ اقتدار میں سکونت اختیار کر لی۔ فرض کیا کہ نواز شریف کی عملی سیاست کے دن اس مقام پر تمام ہوئے، تو ذرا جمع تفریق کر کے بتائیے کہ نواز شریف کو تاریخ کس مسند پر بٹھائے گی؟
نواز شریف کے حامی یہ منظر حیرت سے دیکھ رہے ہیں، چھ ماہ پہلے تک وہ چشمِ تصور سے نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم کا حلف اٹھاتے دیکھ رہے تھے، اور پھر چشم زدن میں ان کے خواب بکھر گئے، نواز شریف منظر سے ہی ہٹ گئے۔ میاں صاحب کی سیاست سے اچانک کنارہ کشی نے ان کے حامیوں کو دماغی طور پر تیار ہونے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا، غالباً میاں صاحب خود بھی اس کیلئے تیار نہیں تھے۔ ’جھٹکا‘ شاید اسی کو کہتے ہیں۔ یہ دوست اپنے لیڈر کی سیاست میں واپسی کے حوالے سے قیافے لگاتے رہتے ہیں، مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ ناامید ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگلا منظر بھی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ نواز شریف کی سیاسی جانشین سی ایم پنجاب ہیں ؟ مگر وہ تو 16گھنٹے جانفشانی سے ایڈمنسٹریشن کے فرائض انجام دیتی ہیں، اور سیاست کیلئے تو ان کے پاس وقت ہی نہیں بچتا۔ شہباز شریف صاحب بھی معروف منتظم ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمیں تو رہ رہ کر بلقیس خانم ہی یاد آتی ہیں:
وہ تو خوشبو ہے ہوائوں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا