حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ کوچۂ یار میں دل دیکھ لے جنت میری کاش عالم بالا سے کوئی غیر مرئی قوت آکر فیصلہ کردے کہ فلاں فلاں ملا کی بتائی ہوئی جنت ٹھیک ہے یا کسی دوسرے تیسرے ملا کی بتائی ہوئی جنت کو سچا مان لیا جائے۔ بظاہر تو ہر ایک مولوی کی بتائی ہوئی جنت مختلف منظر پیش کرتی ہے جبکہ خدا بہتر جانتا ہے کہ جنت کیسی ہوگی، کون سی ہوگی اور کن کن کیلئے ہوگی، فلاں فلاں میں سے کون کون جائے گا؟ کس کی خصلت کیسی ہوگی؟ کون سے نیک مزاج، کون سے برہنہ مزاج اس کے حق دار ہوں گے؟ کون کون سے ثواب پر جنت دستیاب اور کون کون سے گناہ پر جنت آپ کی پہنچ سے دور ہوگی؟ جن میں کون ملا کس خیال کے تحت تخت نشین ہوگا ؟ کون سا کس بدعت کے تحت دور ہوگا جنت سے؟ یہ گتھی کوئی سلجھا دے آکر اے غیر مرئی طاقت! کہ یہاں جھمیلے بہت ہیں سمجھنے اور سمجھانے میں کہ ہر کوچہ و بازار کے اپنے مزاج ہیں اور اپنی ہی تجویز کردہ مذہبی عقائد کی بھرمار، جنت، برزخ اور دوزخ بھی اپنی ہی سوچ کے مطابق اخذ کرلی گئی ہے بالکل گناہ اور ثواب کی طرح! الطاف حسین حالی نے ایسی ہی نقشہ کسی کی ہے اپنے کلام میں کہ کہتے ہیں جس کو جنت وہ ایک جھلک ہے تیری سب واعظوں کی باقی رنگین بیانیاں ہیں آج کل لندن میں گہما گہمی ہے اداکاروں کے جھرمٹ کے جھرمٹ قوس وقزح کا نقشہ پیش کررہے ہیں۔ پاکستان فلم فیسٹول نے بہترین فلموں کی نمائش سے سنیما گھروں کو رونق بخشی اور لندن کے سرد موسم میں یہ فلم فیسٹول بہار ثابت ہو رہا ہے اور اس سے ہفتہ بھر پہلے ایوارڈ شو کا انعقاد ہوا۔ اس ایوارڈ شو میں زیادہ تر ٹیلی ویژن کے اداکاروں نے اپنی ادائیں دکھا کر انگلینڈ کے حاضرین کو محظوظ کیا۔ رنگین قسم کی ستاروں کی بساط بچھی تھی۔ ریڈکارپٹ پر چلتی کئی ٹی وی آرٹسٹ خوب بھڑکیلے لباس میں تھیں، زرق برق پوشاک میں ملبوس یہ ہیروئنز ہالی ووڈ سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔ شو میں شامل آرٹسٹ بھاری بھرکم کامدانی کے لانگ ڈریسز یعنی میکسی اور پشواز پر نہایت اونچی ہیل کی سینڈلز پہنے دکھائی دیں۔ بے چاری بھاری لباس میں کمفرٹیبل بھی نہ تھیں۔ معلوم نہیں جسم پر بھاری لوازمات لادے انہیں وہ کیسے سہہ اور سہار پا رہی تھیں یا نہیں، کئی ایک کے بھاری لباس سینڈل میں اٹک اٹک جا رہے تھے وہ بھی جھٹک جھٹک ہو کر زمین بوس ہو رہی تھیں کہ ارد گرد کے لوگ انہیں پکڑ پکڑ کر کھڑا کرتے رہے، ریڈکارپٹ بھی انہیں مدد کر رہا تھا کسی بھی بری طرح گرنے اور گھائل ہونے سے۔ اگرچہ یہ مناظر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ ہم ہالی ووڈ سے کم نہیں مگر ہالی ووڈ کے ڈریس ڈیزائنر کبھی اپنی ایکٹریس کے لباس پر فالتو فیبرکس کا استعمال نہیں کرتے۔ وہ ایکٹریس کا حسین پیکر مزید مناسب ہوجاتا مگر ویمبلے ارینا میں جن ایکٹریس کو ڈھیلا ڈھالا بھاری کامدار لباس زیب تن کرایا گیا انہیں دراصل فٹنگ والے لباس کی ضرورت تھی اور جسے فیٹڈ لباس پہنایا گیا اسے اصل میں ڈھیلے ڈھالے چوغے نما لباس کی ضرورت تھی۔ خیر جو بھی پروگرام ہوا بہت اچھا ہوا کہ لندن کی ٹھنڈک گہری سرمئی فضا خوشگوار ہوگئی۔ ایرینا کا شو دیکھنے کو زیادہ تر باپردہ یعنی حجابی خواتین اور باریش بزرگ و جہان شوق سے آئے تھے۔ لگتا تھا کہ یہ وہ ایمان رکھتے ہیں جس میں جدید سوچ کا عمل دخل ہے کہ وہ موڈریٹ اور لبرل قسم کے جذبات رکھتے ہیں کہ دنیا میں گناہ و ثواب چلتا رہتا ہے۔ ہم نبی پاک ﷺ کی امت ہیں، آخرتوبخشے ہی جائیں گے۔ اب پاکستان کے جنتی حالات کا جائزہ لیں کہ ویمبلے ایرینا جیسی فلمی فضا و رنگینی تو وہاں نہیں مگر دوسری مذہبی خاطر داری کی رونق وہاں لگی ہے کہ ایک عالمی سطح کے عالم دین اپنا خیرسگالی کا دورہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سکہ رائج الوقت کے مطابق حق مہر کی رقم گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، اسی طرح خیالات میں بھی تھوڑی وسعت کی گنجائش ہوتی ہے تو حالات کیوں نہیں؟ ملائی سوچ کیوں نہیں بدلی جا سکتی؟ کہ بیٹیوں جیسی بچیوں پر دست شفقت نہ رکھا جائے جبکہ دوسری طرف کچھ ایسے عالم دین بھی ہیں کہ جن کی شرافت و شائستگی کی مثال نہیں ملتی مگر شوبز کی خواتین میں وہ مقبول ہیں کیونکہ راہ سے بھٹکی کچھ حسینائیں راہ راست پر آکر ان سے فیض حاصل کرچکی ہیں، ان کی مذہبی و دینی سوچ و خدمات کا احترام کرتے ہوئے ان پر اندھا یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ اداکاراؤں کے جھرمٹ میں بھی نہیں گھبراتے اور انہیں دیکھ کر خواتین مسلمان سے باایمان ہو جاتی ہیں مگر کچھ ملا اتنے قوی و توانا بھی ہوتے ہیں کہ راہ سے بھٹکی حسیناؤں کو اپنی راہ پر لے آتے ہیں کہ کہنا پڑتا ہے کہ ’’جنت ہمیں قبول ہے ہمراہ آپ کے‘‘۔ ایسے ملاؤں کو کہا جاتا ہے کہ ’’ملا کو بھی میسر نہیں عالم ہونا‘‘۔ اب بھلا فیصلہ کیجئے کہ کون سے ملا کی تجویز شدہ جنت میں جایا جائے؟ سبھی کی اپنی اپنی مسجد ہے مگر مسلمانوں کو ملاؤں سے زیادہ عالم دین پر یقین و اعتماد ہے۔