• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یحییٰ سنوار نے 22 سال اسرائیلی جیل میں یہودیوں کے بارے میں کیا سیکھا؟


یحییٰ سنوار: فوٹو نیویارک ٹائمز
یحییٰ سنوار: فوٹو نیویارک ٹائمز

اسرائیلی جیل میں 22 سال گزارنے والے حماس کے چیف یحییٰ سنوار کے  ایک پرانے انٹرویو میں ان کی زندگی کے اہم واقعات سامنے آئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یحيیٰ سنوار کو 19 اکتوبر 2011 کو اسرائیلی جیل سے رہائی ملی تھی۔

غزہ میں پیدا ہونے والے یحییٰ سنوار نے تقریباً ایک چوتھائی صدی اسرائیل میں عمر قید کی سزا کاٹی۔ ان کو 1980 کی دہائی کے آخر میں اسرائیلی فوجیوں اور مشتبہ فلسطینی مخبروں کے قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

جیل میں انہوں نے حماس کی صفوں میں ترقی کی، عبرانی زبان سیکھی اور اپنے اسرائیلی جیلروں کا مطالعہ کیا اور حماس کے قیدی جنگجوؤں میں ایک اہم شخصیت بن گئے۔

فوٹو: رائٹرز
فوٹو: رائٹرز

وہ اتنے مقبول ہوچکے تھے کہ جب ان کی رہائی ہوئی، غزہ کے خان یونس میں ان کے گھر کے قریب حماس اور غزہ کے لوگوں نے جشن  منایا، گھر کے باہر  سبز خیمے بھی لگائے گئے اور جھنڈیاں بھی لگائی گئی تھیں، اس موقع پر غزہ کے لوگوں کی ایک طویل قطار تھی، جو انہیں گھر آنے پر خوش آمدید کہنے کے منتظر تھے۔

اس دوران جب وہ ہاتھ ملا رہے تھے اور چاہنے والوں سے گلے مل رہے تھے، تو سنوار نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ انہوں نے قید کے دوران اسرائیلیوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔

انہوں نے یقین کے ساتھ کہا کہ "ہم نے جیلوں کو عبادت گاہوں اور تعلیمی درسگاہوں میں بدل دیا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں یہودی قوم کی تاریخ کا ماہر ہوں، شاید ان میں سے بہت سے لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔"


فوٹو: رائٹرز
فوٹو: رائٹرز

یحییٰ سنوار کیلئے لگایا گیا کیمپ آزاد کیے گئے قیدیوں کےلیے غزہ میں راتوں رات قائم ہونے والے متعدد استقبالیہ خیموں میں سے ایک تھا۔ لیکن سنوار دوسرے قیدیوں کی طرح نہیں تھے۔ انہیں اور چند دیگر کو رات کے وقت رفاہ بارڈر کراسنگ سے سیدھا غزہ کے ایک بڑے جلسے میں جو حماس کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا اسماعیل ہنیہ اور دیگر حماس رہنماؤں کے ساتھ اسٹیج پر پہنچایا گیا۔

فوٹو: رائٹرز
فوٹو: رائٹرز

انٹرویو میں ان کے جوابات طے شدہ، تیاری اور اور منصوبہ بندی کے ساتھ تھے۔ تاہم وہ اس وقت زیادہ متحرک ہو گئے جب وہ اپنے وقت کے بارے میں بات کر رہے تھے جو انہوں نے جیل میں گزارا، اور لگ رہا تھا کہ وہ اپنی دو دہائیوں کی قید کو اپنے اور حماس کےلیے ایک فائدہ کے طور پر پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کے لیے وہ اپنی زندگی کو پوری طرح وقف کر چکے تھے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ "ہمارے بہت سے لوگوں نے پڑھنا، سننا اور عبرانی زبان میں بولنا سیکھا، خاص طور پر انہوں نے جو طویل مدت کے لیے جیل میں تھے۔"

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں باہر کی دنیا کے بارے میں کوئی چیز حیران کر رہی تھی، تو وہ حیرت زدہ نظر آئے۔ لیکن غور کرنے کے بعد انہوں نے تسلیم کیا کہ جب وہ حماس کی تخلیق کے ابتدائی دنوں میں جیل گئے تھے، تو وہ اس بات کےلیے تیار نہیں تھے کہ ہزاروں حماس جنگجو غزہ کی مرکزی شاہراہوں کے راستے پر گارڈ آف آنر پیش کریں گے۔

اپنے انٹرویو میں مستقبل کے بارے میں سنوار نے بس اتنا ہی کہا: "ابھی ابتدائی وقت ہے۔ میں تقریباً ایک چوتھائی صدی قید میں رہا اور جب باہر آیا تو دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔ مجھے آرام کرنا ہے، سانس لینا ہے اور اپنے ارد گرد کی صورتحال کو سمجھنا ہے۔ اس کے بعد میں فیصلہ کروں گا۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید