امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کے اعلامیے میں دو ریاستی حل اور 1967 کی پوزیشن کی بات نہیں ہونی چاہیے، اسرائیل کا ایک انچ کا وجود بھی تسلیم نہیں کریں گے۔
مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کےلیے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں قومی قیادت نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور اقوام متحدہ کی رکنیت کا مطالبہ کیا۔
اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ دو ریاستی حل کی بات کرنا اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنا ہے، ہمیں ایک بیداری کی لہر پیدا کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم دو ریاستی حل کی بات نہیں کرتے، اسرائیل کو ایک انچ بھی تسلیم کرنے کی بات نہیں کرتے، میں نے مولانا فضل الرحمان سے تفصیل سے بات کی ہے، جو حالات وہاں کے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ غزہ میں 80 سے 90 فیصد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں، اسرائیل کو ہم ریاست ہی نہیں مانتے، 70 سے 80 فیصد اسلحہ اسرائیل کو امریکا فراہم کررہا ہے، حماس والے الیکشن جیتے تھے، اسماعیل ہنیہ کو وزیر اعظم نامزد کیا گیا تھا، امریکا نے اس وقت حماس کو کام کرنے نہیں دیا تھا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ انسانیت کو قتل کرنے والوں کو ہمیں ایکسپوز کرنا چاہیے، ہمیں صرف فلسطین کی آزادی کی بات کرنی چاہیے، دنیا کی سب سے بڑی جیل میں رہنے والوں نے اسرائیل کو شکست دی، القسام بریگیڈ نے اسرائیل کو شکست دی، اسرائیل اب عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر حملے کررہا ہے، 1948 میں 25 ہزار لوگوں کو قتل کیا گیا تھا، 2023 سے پہلے فلسطین کے کیا حالات تھے، 7 اکتوبر سے پہلے ہزاروں نوجوان اسرائیل کی جیلوں میں موجود تھے۔
حافظ نعیم نے کہا کہ وزیر اعظم اور پی ٹی آئی والوں کے پاس بھی فلسطین مسئلے کےلیے گیا، اسلامی ممالک کے سربراہان کو ہمیں بلانا چاہیے، جنوبی افریقہ، چین، سعودی عرب سےخاص طور پر بات کرنے کی ضرورت ہے، اصل سوال ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اللّٰہ پاک ہماری مدد کرے گا، ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، انسانی حقوق کے میدان میں ہمیں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، اتحاد میں ہی ہماری نجات ہے، ہم نادان ہیں کہ تقسیم ہوجاتے ہیں، جو بھی اعلامیہ ہوگا اس میں دو ریاستی حل کی بجائے فلسطین کی آزادی کی بات کی جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں 173 صحافی، 900 سے زائد ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس شہید ہو چکے ہیں، جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے اسے نسل کشی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا، اس پلیٹ فارم سے صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کا پیغام جانا چاہیے، قائد اعظم کا بھی یہی موقف تھا کہ اسرائیل صرف ایک قابض طاقت ہے، دو ریاستی حل یا 1967 کی پوزیشن کی حمایت قائد اعظم کے اصولی موقف کی نفی ہے، فلسطینی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں، دو ریاستی حل کی بات اسرائیل کو قائم رہنے کا جواز فراہم کرنا ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اسرائیل کو عرب اور مسلم ممالک کی خاموشی نے طاقت فراہم کی ہے، ہم اعلان بالفور اور یہودیوں کو فلسطین پر مسلط کرنے کو نہیں مانتے، فلسطینی اتنے زبردست لوگ ہیں کہ خیموں میں بھی بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں، شاید فلسطینیوں کے ذہن میں یہ ہو پاکستان اور ترکیہ ہمارا ساتھ دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کی امداد بڑھانی ہوگی، فلسطینی بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنا ہوگا، پاکستان بنا ہی نظریے پر ہے، ہمارا کردار دیگر ملکوں سے مختلف ہونا چاہیے، اس وقت بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو شیعہ سنی اختلاف بڑھانا چاہتے ہیں۔