• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منگل کے روز سامنے والے اس انکشاف سے، کہ کراچی میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے چینی انجینئرز بجلی کی قیمتوں میں کمی پرہونے والے مذاکرات میں شامل تھے، یہ بات واضح ہوگئی کہ دہشت گردی کی یہ واردات پاک چین مذاکرات سبوتاژ کرنے یا تاخیر کاشکار کرنے کی سازش کا حصہ تھی۔ پاک چین تعلقات میں دہشت گردی اور عدم تحفظ کا احساس شامل کرکے رخنہ ڈالنے کی یہ کوشش پہلی نہیں۔ عرصہ سے مختلف لبادوں میں آنے والے دہشت گرد گروہ ہر اس کوشش کو ناکام بنانے کیلئے اپنی حد تک سرگرداں ہیں جس سے پاکستان کی سیکورٹی اور اس کی معیشت کو سہارا ملے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے چینی سفارت خانے کا دورہ کرکےواقعے کی مذمت کی، دکھ کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ وہ تحقیقات کی خود نگرانی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ چینی دوستوں کی سیکورٹی میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان سے بھی واضح ہے کہ بیجنگ دونوں ملکوں کے تعلقات سبوتاژ کرنے کی کوششیں ناکام بنانے کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستانی حکومت اور اس کے سیکورٹی ادارے چینی بھائیوں اور دوسرے غیر ملکی دوستوں کی حفاظت کیلئے مستعد ہیں۔ مگر عالمی برادری کے سامنے وہ حقائق بار بار سامنے لائے جانے چاہئیں جو چند برس قبل ڈوزئر کی صورت میں شواہد کے ساتھ پڑوسی ملک بھارت کے خلاف پیش کئے گئے تھے۔ پیر کو جو واقعہ رونما ہوا اسے مخصوص مذہبی گروپوں یا علاقائی شکایات کا نام دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے گروپ یقیناً سرگرم عمل ہیں جنہیں محدود مقاصد کے حامل سمجھنا غلطی ہوگی۔ اس نوع کی کارروائیاں بڑی منصوبہ بندیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں جو کسی ملک یا خطے کو نقصان پہنچانے کے لئے بڑی سوچ بچار اور تیاری سے بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ بھارتی بحریہ کے اعلیٰ افسر اور پاکستان میں جاسوسی ودہشت گردی کا نیٹ چلانے والے کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری اس کا بیّن ثبوت ہے۔ یہ بھارتی کمانڈر اس وقت قانونی کارروائی سے گزررہا ہے۔ جس نوع کی کارروائی کے پی میں کچھ عرصہ قبل چینی انجینئروں کے حوالے سے کی گئی یا اب کراچی میں نظر آئی اس کے پیچھے بڑا نیٹ ورک موجود ہوتا ہے۔ اس کی روک تھام کیلئے چین اور پاکستان ہی نہیں خطے کے تمام ملکوں کو ایک نظام کے تحت کام کرناچاہیے۔ جہاں تک پڑوسی ملک بھارت کا تعلق ہے اس کے کینیڈا سمیت کئی ملکوں میں سنگین جرائم میں ملوث ہونے سے دنیا واقف ہے، نئی دہلی کی دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ (سی پیک) سامنے آنے کے بعد اس کے اعلیٰ سرکاری حلقوں کی طرف سے سی پیک کو ناکام بنانے کی بات کھل کر کہی گئی یہاں تک کہا گیا کہ اگر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) موثر کارکردگی نہ دکھاسکی تو داعش سمیت دوسری تنظیموں کو متحرک کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پرہے کہ پاک فوج کے ہاتھوں جہنم رسید ہونے والے بعض دہشت گرد مسلمان نہیں تھے۔ بھارت کی شروع سے یہ حکمت عملی رہی کہ پاکستان کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلا کر اسے بدنام کیا جائے۔ کچھ عرصے قبل یورپی یونین کے ایک ادارے کی طرف سے سامنے آنے والی تحقیق سے اس نوع کی سیکٹروں ویب سائٹس کا انکشاف ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور قیام پاکستان کے وقت سے لیکر آج تک اس کا بڑا حربہ عدم تحفظ کی کیفیت پھیلانا اور معیشت پر ضرب لگانارہا ہے۔ ان سب معاملات سے دنیا کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارتی سرگرمیوں سے متعلق سابقہ ڈوزئر کو اپ ڈیٹ کیا جائے اور ہمارے سفارتکار زیادہ فعال نظر آئیں۔

تازہ ترین