اسلام آباد (محمد صالح ظافر ،خصوصی تجزیہ نگار) مولانا فضل الرحمٰن نے اپنا آئینی مسودہ تحریک انصاف کو دینے کی بجائے اپنے آئینی ماہرین کو مزید کانٹ چھانٹ کے لئے بھیج دیا۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دن بھر منتظر رہیں اور مایوس ہوئیں، جمیعت العلمائے اسلام کے آئینی ماہرین کی ٹیم کے سربراہ نے الگ آئینی عدالت کے قیام کو اپنے مسودے سے خارج کر دیا۔
مولانا نے کہا ہے کہ "مسودے کی انگریزی درست کردو" ٹیم کے سربراہ کی دل لگی، کل جمعہ کو شروع ہونے والا ہفتہ پارلیمان میں جاری جنگ کے لئے فیصلہ کن ہوگا۔
جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے عدالتی اصلاحات پر مبنی اپنی آئینی ترامیم کا مسودہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کو دینے کی بجائے اس میں مزید تبدیلیوں کے لئے اپنے آئینی ماہرین کی ٹیم کو واپس بھیج دیا ہے تاکہ اس میں مزید کتربیونت کی جائے۔
اس طرح بدھ کو تحریک انصاف کے جس وفد نے مو لانا سے ملاقات کی تھی وہ خالی ہاتھ واپس آگیا ہے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے رہنما دن بھر منتظر رہنے کے بعد نئی مایوسی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
جمعیت العلمائے اسلام کے آئینی ماہرین کی ٹیم کے سربراہ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مولانا کی طرف سے انہیں مسودہ واپس کئے جانے اور اس میں مزید تحریف و اضافے کی ہدایت کی تصدیق کردی ہے۔
جنگ /دی نیوز سے بدھ کی شب مختصر گفتگو میں انہوں نے پہلی مرتبہ نئی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو اپنے فارمولے سے خارج کردیا اور بتایا کہ طویل غور و خوض کے بعد اب وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ سپریم کورٹ میں آئینی معاملات نمٹانے کے لئے الگ سے ایک بنچ قائم کردیا جائے جو جاری تنازعے کا بہترین حل ہے۔
ان کے خیال میں اوسطاً ماہانہ بنیادوں پر زیر غور آنے والے آئینی تنازعات کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہوتی ان حالات میں الگ سے آئینی عدالت کا قیام زائد از ضرورت کارروائی ہوگی۔
جب ان سے زور دیکر دریافت کیا گیا کہ اب کسی ترمیم کو نرم یا کونسی نئی ترمیم ڈالنے کی ہدایت ملی ہے تو سنجیدگی پر مائل رہنے والے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے رکن نے ہلکا سا قہقہہ لگاکر کہا کہ مولانا نے فرمایا ہے کہ ’’اس کی انگریزی ذرا بہتر کردی جائے‘‘۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مو لانا فضل الرحمٰن کی طرف سے ایک مرتبہ پھر سرد مہری کے اظہار نے حکمران اتحاد کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو بڑے جو ش و خروش سے ترمیم کے بھاری پتھر کو اٹھانے کا عزم لیکر آگے بڑھے تھے اب اسے چوم کر چھو ڑدینے کے انداز میں یہ کہہ کر بات کررہے ہیں کہ ان کی طرف سے ترامیم کی منظوری کے لئے کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہیں کی گئی تھی۔
جمعیت العلمائے اسلام کے حلقوں کا کہنا ہے کہ جسٹس سید منصور علی شاہ سے جس خوف کو منسلک کیا جارہا ہے وہ غیر حقیقی اور بعید از قیاس ہے بلاول بھٹو زرداری اب توقعات کے اظہار میں محتاط روی پر اتر آئے ہیں۔
پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت اپنے ارادے میں کمزوری ظاہر نہیں کررہی وہ ان کی منظوری کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کل (جمعہ) سے شروع ہونے والا ہفتہ عدالتی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمانی میدان میں بڑی جاری جنگ کے لئے فیصلہ کن ہوگا اس میں حکومت کی رجعت کسی بڑے واقعہ کو جنم دے سکتی ہے۔
جمعیت العلمائے اسلام اسے خدشہ نہیں سمجھتی تحریک انصاف ترامیم نہ ہونے سے رونما ہونے والے نتائج کا خیرمقدم کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے خواہ ان سے ملک، جمہوریت اور سیاست پر کس قدر ہی گراں اثرات کیوں مرتب نہ ہوں۔
ترامیم ہوجائیں تو پیپلزپارٹی اسے اپنی دستار میں نئے سنہری پھول کے طور پر پیش کرے گی وہ کامیاب نہ ہوئی تو جدوجہد کے عزم سے سرشار رہے گی۔ ذرائع کے مطابق ’’حکومتی ماہرین‘‘ ہر طرح کی صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے لئے تیاری مکمل کرچکے ہیں وہ ناکام رہنے کو آپشن نہیں مانتے۔
اس دوران سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بتایا ہے کہ وہ ترمیمی مسودے کو جمعہ کے روز مولانا فضل الرحمٰن کو ارسال کردینگے توقع ہے کہ وہ اسی روز نقول دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کے حوالے کردینگے۔