آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کو نئے میکرو اکنامک استحکام اور قابلِ عمل معاشی پالیسیوں کے لیے کام کرنا ہو گا۔
آئی ایم ایف کی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو معاشی اصلاحات پر عمل درآمد اور نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول دینا ہو گا، حکومتی ملکیتی اداروں میں اصلاحات کو تیز کرنا ہو گا، حکومت کو ٹیکس آمدن بڑھانا ہو گی اور اخراجات میں کمی کرنا ہو گی۔
پاکستان کی شرحِ نمو رواں مالی سال 25-2024ء سے 29-2028ء کے درمیان 3.2 سے 4.5 فیصد رہنے کا اندازہ ہے، اس دوران مہنگائی ساڑھے 9 سے ساڑھے 6 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایکشن پلان تیار کرنا ہو گا، پاکستان میں چند دہائیوں میں جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں معیار زندگی کم ہوا ہے، پاکستان کو مضبوط معاشی پالیسیوں اور اصلاحات پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق پاکستان نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مناسب سرمایہ کاری نہیں کی، پاکستان میں غربت 40 فیصد ہے، ملک میں زیادہ پیداواری ملازمتوں کی قلت ہے، حکومت بااثر کاروباروں کو سبسڈی یا ٹیکس سہولتیں فراہم کرتی ہے۔
دستاویزات میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات سے مسابقت اور پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی، انفرااسٹرکچر میں کم سرمایہ کاری کے باعث ملک موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوا، ماضی میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ اصلاحات پر عمل درآمد نہیں کیا۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان نے 2 دہائیوں میں عالمی تجارت کا حصہ بننے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے، اس کی وجہ سے پاکستان اپنی برآمدات میں اضافہ نہیں کر سکا، حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات میں علاقائی ممالک کی طرح اضافہ نہیں ہوا، پاکستان کو پروگرام کے دوران دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے 14 ارب ڈالرز کی فنانسنگ ملنے کی امید ہے۔
دستاویزات کے مطابق حکومتِ پاکستان پر سیاسی عدم استحکام کے باعث اصلاحات اور ٹیکسوں میں کمی کا دباؤ رہے گا، سیاسی کشیدگی سے معاشی استحکام متاثر ہو سکتا ہے، حکومت نے ٹیکس وصولی کو جی ڈی پی کے 12.3 فیصد کے برابر لانے پر اتفاق کیا ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کیلئے 1723 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کیے گئے ہیں، رواں مالی سال کے بجٹ میں انکم ٹیکس میں اصلاحات سے 357 ارب روپے اضافی حاصل ہوں گے، سیلز ٹیکس اصلاحات سے 286 ارب روپے کی اضافی آمدن ہو گی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے 413 ارب روپے کی اضافی آمدن ہو گی۔
ود ہولڈنگ ٹیکسوں سے 240 ارب روپے کی وصولی ہو گی، کسٹمز ڈیوٹیز سے 65 ارب روپے اضافی آمدن ہو گی، ٹیکس کمپلائنس بہتر بنانے سے 157 ارب روپے اضافی آمدن ہو گی، انتظامی اختیارات سے 250 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کی جائے گی۔