کراچی، اسلام آباد (اسٹاف رپورٹر، فاروق اقدس، ایجنسیاں) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی آئینی ترمیم پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں، مجھے جتنا اس عدالتی نظام کا پتا ہے اتنا کسی اور سیاستدان کو نہیں معلوم، انصاف کے نظام میں بہتری کیلئے وفاقی آئینی عدالت ضروری ہے، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہاہے کہ گفتگو اور مذاکرات کے نتیجے میں آئینی ترامیم پر کافی حد تک ہم آہنگی پیدا ہو چکی ہے، آئینی ترامیم پر جو چیزیں ہم نے مسترد کیں وہ واپس ہوچکی ہیں، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت اپنی مرضی کا عدالتی نظام لانا چاہتی ہے، نئے چیف جسٹس کی حلف برداری تک آئینی ترمیم موخر کیا جائے، آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کیلئے پارلیمانی خصوصی کمیٹی کا ساتواں اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا ترامیم پر اتفاق نہ ہو سکا اوراجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا، کمیٹی کا آئندہ اجلاس 17 اکتوبر کو ہوگا ، اے این پی نے اپنا ترمیمی مسودہ پیش کر دیا جس میں انہوں نے خیبر پختونخوا کا نام پختونخوا رکھنے کی تجویز دیدی، اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، عمر ایوب اور ایمل ولی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
تفصیلات کے مطابق بلاول بھٹو نے کہا کہ جس عدالت کی ذمہ داری ہمارے حقوق کا تحفظ کرنا اور حق کا دفاع کرنا ہے وہی عدالت ایک فوجی آمر کو اپنی مرضی کا آئین بنانے کی اجازت دیتی ہے، ملک میں انصاف کے نظام میں بہتری لانے کیلئے وفاقی آئینی عدالت قائم کرنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ کیا یہ بات مان لیں کہ جیل میں بیٹھے کسی شخص کا موڈ نہیں تو ہم اپنی قائد کے وعدے سے پیچھے ہٹ جائیں؟ پیر کو چیف منسٹر ہاؤس کراچی میں بینظیر ہاری کارڈ کی تقریب سے خطاب ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تو ملک میں برابری کی نمائندگی کو یقینی بنانا ہوگا، عام عدالت کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص عدالت کا قیام بھی اس میں بہتری لانے کا ایک طریقہ ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جب پاکستان کے تمام صوبوں سے برابری کی بنیاد پر منصفین بیٹھیں گے ہمارے آئینی مسائل کا حل نکلے گا، ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوگا، اگر وفاق کا کسی صوبے سے جھگڑا ہو یا اس صوبے کو کوئی مسائل درپیش ہوں تو پھر ایک ایسا فورم ہونا چاہیے جہاں ان مسائل کو حل کیا جاسکے، ہمارے دو مطالبات ہیں ایک آئینی عدالت کا قیام اور دوسرا ججز کا تقرری کا طریقہ کار، یہ سب میثاق جمہوریت میں طے کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جو مجھے کہہ رہے ہیں پیچھے ہٹ جائیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ تم پیچھے ہٹ جائو۔ ادھر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت اپنی مرضی کا عدالتی نظام لانا چاہتی ہے،ہم آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، تمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی اب اس پر گفتگو ختم کر دینی چاہئے، ہماری اپوزیشن جماعتوں سے درخواست ہے کہ آئینی ترمیم کے اس گورکھ دھندے میں نہ پڑیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے اور نئے چیف جسٹس کے آنے کے بعد آئینی ترمیم پر بات چیت کی جائے، 5آئی پی پیز بند کرنے سے ہونے والا 411 ارب روپے کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جائے اور فی یونٹ تقریباً 15روپے کم کئے جائیں، رہائشی اور صنعتی صارفین کو سستی بجلی دی جائے، مزید 17آئی پی پیز ایسی ہیں جن سے بات چیت فوری طور پر مکمل کی جائے، ہماری آرمی چیف سے بھی درخواست ہے کہ وہ آگے آئیں اور اعلان کریں کہ فوج کے دائرے میں آنے والی آئی پی پیز کیپیسٹی پیمنٹ وصول نہیں کرینگے۔
کراچی کا انفرا اسٹرکچر تبال حال ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی اور گٹر بہہ رہے ہیں، سندھ حکومت بلدیاتی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے پر تیار نہیں، سندھ میں کرپشن اور کمیشن انتہا پر ہے اور اسے سسٹم کہا جاتا ہے، اسی سسٹم کے تحت زمینوں پر بھی قبضے کیے جاتے ہیں۔
سندھ حکومت کراچی کو اس کا جائز اور قانونی حق دے۔دریں اثناء جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہاہے کہ گفتگو اور مذاکرات کے نتیجے میں آئینی ترامیم پر کافی حد تک ہم آہنگی پیدا ہو چکی ہے۔
ٹنڈوالہ یار میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا کام ہی آئین اور قانون میں ترمیم کرنا ہے لیکن آئینی ترمیم آتی ہے تو اس پر اختلاف بھی ہوتا ہے، ملکی حالات اور ضرورت کے تحت قانون سازی ہونی چاہیے، ہم نے ملک اور عوام کے مفاد میں سب کچھ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کے مسودے پر اعتراض کیا تھا کیونکہ حکومت کے مسودے سے عدلیہ اور عوام کے حقوق تباہ ہو جاتے، جو چیزیں ہم نے مسترد کیں وہ واپس لے لی گئیں اور امید ہے ہمارے مطالبات قبول کر لیے جائینگے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم میں بھی ہمیں 9 ماہ لگ گئے تھے، جب 18ویں ترمیم میں اتنا وقت لگ گیا تھا تو 26ویں ترمیم میں ہمیں اتنے دن تو ملنے چاہئیں کہ اچھی طرح سے نکات دیکھ لیے جائیں۔
ادھر آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کیلئے پارلیمانی خصوصی کمیٹی کا ساتواں اجلاس بھی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا اور آئینی ترامیم پر اتفاق نہ ہو سکا ،کمیٹی کا آئندہ اجلاس 17 اکتوبر کو ہوگا ۔
اے این پی نے اپنا ترمیمی مسودہ پیش کر دیا جس میں انہوں نے خیبر پختونخوا کا نام پختونخوا رکھنے کی تجویز دیدی،عوامی نیشنل پارٹی نے آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے حکومتی تجاویز کی حمایت کردی ،صوبے کا نام صرف پختونخوا رکھنے ،تمام صوبوں سے مساوی ججز کی تعیناتی ،صوبوں کو معدنیات اور گیس میں مساوی حق دینے کی تجاویز دیدی گئی، صوبائی آئینی عدالت،چیف جسٹس کی مدت ملازمت کی مخالفت کردی ہے۔
پارلیمانی خصوصی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے آئینی ترمیم سے متعلق مسودوں کا جائزہ لیا گیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ذیلی کمیٹی اپنا کا م مکمل نہیں کر سکی لہٰذا پارلیمانی کمیٹی ہی تمام مسودوں کا جائزہ لے۔ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی آراکین کے درمیان متعدد بار تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ،تاہم وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے دونوں کے درمیان معاملہ ختم کرادیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر گوہر،عمر ایوب، اسد قیصر نے تمام آئینی مسودہ پر مزید مشاورت کی تجویز دی جسکی پیپلز پارٹی نے شدید مخالفت کی۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اب ایسا نہیں ہو سکتا، ہم نے پہلے ہی بہت تاخیر کر دی ہے،سب کو سنجیدگی دکھانا ہوگی،مزید تاخیر بلا جواز ہے،یہ ترامیم کسی فرد واحد یا مخصوص جماعت کیلئے نہیں بلکہ 24کروڑ عوام کیلئے ہے، کمیٹی نے بھی مزید مشاورت کیلئے وقت دینے کی تجویز کو رد کر دیا۔
ایمل ولی نے اس موقع پر کہا کہ بیرسٹر گوہر کے علاوہ سب کمیٹی کا وقت ضائع کررہے ہیں جس پر عمر ایوب بھڑک اٹھے اور کہا کہ آپ کو ن ہوتے ہیں یہ بات کہنے والے ،جس پر ایمل ولی نے بھی غصے سے کہا کہ میں چیئر سے بات کررہا ہوں ،آپ بھی چیئر کو مخاطب کریں ،عمر ایوب بولے میں تم سے بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔
بعد ازاں خورشید شاہ نے کمیٹی کا اجلاس 17 اکتوبر تک ملتوی کر دیا اور اعظم نذیر تارڑ کو ذیلی کمیٹی کا اجلاس بلا کر تمام مسودوں کو یکجا کر کے ایک متفقہ مسودہ خصوصی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی جبکہ پی ٹی آئی نے جے یو آئی کے ساتھ اپنا ڈرافٹ شیئر کرنے کے لئے وقت مانگ لیا ۔