• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلمان قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں، جاوید احمد غامدی

برسلز (نمائندہ جنگ) مذہبی محقق جاوید احمد غامدی کے ساتھ یورپین دارالحکومت برسلز میں نشست کا انعقاد کیا گیا۔ اس حوالے سے منعقد تقریب کے دوران جرمنی، برطانیہ، ناروے اور کئی دیگر ملکوں سے مرد و خواتین کے علاوہ مقامی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم طلبہ نے شرکت کی اور اپنے سوالات کے ذریعے ان سے دینی فکر کے متعلق آگاہی حاصل کی۔ یہ پروگرام اپنے آپ میں ایک دینی خطاب نہیں تھا بلکہ شرکائے تقریب کے بے تکلف اور تنقیدی سوالات سے آگے بڑھنے والی ایک گفتگو تھی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے جاوید احمد غامدی نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ قرآن کریم کو ترجمے کے ساتھ خود پڑھیں، اس سے کسی دوسرے کی زبان کی بجائے قدرت کی عطا کردہ فہم کے مطابق خدا کی بات ان تک پہنچے گی۔ اس کے بعد ان کے اندر پیدا ہونے والی تشنگی انہیں علم کے مراجع تک لے جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذرائع کی تبدیلی کے ساتھ ہی ابلاغ کی دنیا بھی تبدیل ہو گئی ہے۔ اس کی تیز رفتاری کے باعث چیزیں اب اتنی مشکل نہیں رہیں۔ انہوں نے متوجہ کیا کہ لوگ خصوصی طور پر یورپ میں رہنے والے افراد قرآن سے متعلق سٹڈی سرکل بنائیں اور دینی فکر کو سمجھیں۔ انہوں نے زور دیا کہ مساجد کو فرقہ وارانہ تقسیم کے مرکز کی بجائے مسلمانوں کے ادارے کے طور پر ہی رہنا چاہئے۔ پاکستانی معاشرے کی موجودہ مذہبی ہیئت اختیار کر لینےکے سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست نے مذہب کو باہمی احترام، رواداری میں اضافے اور امن کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا۔ پاکستان کی سرحدوں سے باہر نکل کر افغانستان سے ہوتے ہوئے سینٹرل ایشیا کی ریاستوں تک ایک خیالی فکر کی آبیاری کرکے جن طالبان کو اپنا اثاثہ قرار دیا گیا، آج پاکستان انہی طالبان کے خلاف اقوام متحدہ میں ایک مدعی بن کر کھڑا ہے۔ یہ اس سطحی خیال میں رنگ بھرنے کی خواہش ہی کا نتیجہ ہے کہ بڑے معاشی اور جانی نقصان کے بعد پاکستان بطور معاشرہ مختلف طرح کی پراگندگی کا شکار ہوگیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مسلمان قرآن، سنت اور تاریخ کی کتب سے دین اخذ کرنے کے مسائل کے پہلو کے بارے میں غور کریں۔ انہوں نے شرکائے تقریب کو اس بات کیلئے بھی متوجہ کیا کہ مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ قرار دینے سے کن مذہبی اور فکری مغالطوں نے جنم لیا۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ تحقیق کے ہر زاویے کو احترام سے پرکھا اور سنا جائے اور پھر اسے اپنے ضمیر کے اطمینان کے ترازو پر تول کر اسے اختیار کر لیا جائے۔ یورپ میں رہتے ہوئے اپنی بچوں کی تربیت پر خوف کے حوالے سے محفل میں شریک ایک نوجوان ماں کے سوال پر انہوں نے باور کرایا کہ پاکستانی سماج بھی اب اتنا محفوظ نہیں رہا جس سے اطمینان کا پہلو نکلتا ہو۔ دوسرے ہدایت کا حصول کسی خطے میں قیام سے کبھی مشروط نہیں رہا۔ انہوں نے اس کیلئے صحابہ کرامؓ کی مثال دی جو اپنی مظبوط فکر کے ساتھ ہر جگہ پہنچے اور اس معاشرے میں اسلام کے آفاقی اصولوں پر عمل درآمد کے ذریعے اپنی جگہ بنائی۔ خود ہندوستان میں جب مسلمان پہنچے تو وہ شرک کے بڑے مراکز میں سے ایک تھا۔ لیکن وہاں بھی مسلمان دین پہنچانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی، اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی قومی زبان سے جوڑیں۔ اگر ان کا تعلق اپنی قومی زبانوں کے ذریعے اپنے خاندان اور سماج سے جڑ گیا تو وہ خود اپنے بہت بڑے علمی ذخیرے تک رسائی حاصل کر لیں گے۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ اسلام میں بندگی کیلئے خدا کی ذات اور عقیدت کیلئے مرکز کی حیثیت صرف جناب رسالت مآب ﷺ ہی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام لوگوں سے ہماری الفت و محبت انسانی احترام کے دائرے میں ہی ہوگی۔ انہوں نے شرکائے محفل کو تلقین کی کہ ایک سچے طالب علم کے طور پر وہ دوسروں کے خیالات کو اتنے ہی احترام سے سنیں جتنا احترام وہ اپنی گفتگو کیلئے چاہتے ہیں۔ اس نشست کی میزبانی کے فرائض حسن الیاس نے انجام دیئے۔ یاد رہے کہ جاوید احمد غامدی ان دنوں نجی دورے پر یورپ آئے ہوئے تھے۔
یورپ سے سے مزید