• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبر داد خان
برطانوی انگریزی میڈیا معاشرہ کو ترتیب دینے والی وہ قوت ہے جس کی مثال کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی، یہاں کے اخبارات اور نیوز چینلز کی اکثریت زیادہ بھاری کمرشل کنٹرول کے اداروں کے ماتحت نہیں چل رہے۔ بی بی سی ایک محدود حد تک حکومت کے اثرورسوخ میں رہ کر اپنے پروگرامز کرتی ہے کیونکہ اس کے اخراجات کا معقول حصہ اسے ٹی وی لائسنس فیس سے ملتا ہے۔ برٹش صحافت اپنے عالی مرتبت ٹیلنٹ کی وجہ سے دنیابھر میں مشہور ہے اور ٹیلنٹ کا یہ پول وسیع بھی ہے اور منفرد بھی ہے۔ میری طرح سیاست اور صحافت میں بلندیوں کی طرف بڑھنے اور زوال پذیر ہونے والوں پر میڈیا کے تبصرے پڑھنے اور سننے والوں کیلئے ایک دلچسپ مشغلہ ہے جو ذہنی اور قلبی سکون فراہم کرتا ہے۔ یہیں کہیں سے لوگوں کی ایک تعداد کسی ایک میڈیا جرنلسٹ اور اخبار سے جڑ ایک ’’فین کلب‘‘ کی بنیاد ڈال دی جاتی ہے ۔ جب یہی جرنلسٹ اپنے کردار کے آغاز میں ہی بلند پایہ صحافت کی بلندیوں کو چھونےلگے تو قسمت کامیابیوں کے دروازے کھول کر ایسے لوگوں کو اس مقام پر پہنچا دیتی ہے جس کے متعلق شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔ 24ستمبر کو ایسا ہی ایک نامور صحافی، ایک ڈپلومیٹ اور برٹش ٹیلیویژن کا ایک بڑا اینکر پرسن آنجہانی Peter Jay ہم سے بچھڑ گیا۔ لارڈ ڈگلس جے مرحوم کا پیٹا پیٹر جے جس نے یونیورسٹی تعلیم کے دوران ہی اپنی ذہانت کی دھاک بٹھائی شروع کردی۔ لارڈ ڈگلس جے مرحوم اور جیمز کہلاہن مرحوم سابق لیبر پرائم منسٹر ایک ہی کابینہ کا حصہ رہنے کے علاوہ اچھے دوست بھی تھے۔ یہ دو گھرانے پیٹرجے اور مارگریٹ جو جیمز کہلاہن کی بیٹی تھی کی شادی کے بعد مزید ایک دوسرے کے قریب ہو گئے۔ Peter Jay کی وفات پر The Times اخبار نے ایک طویل تعزیتی کالم لکھا ۔ پیٹر جے نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی یونین کی صدارت حاصل کرلینے کے بعد وہیں سے یونیورسٹی نیوز سے اپنے صحافتی کردار کا آغاز کیا۔ نہایت کم عرصہ میں معاشیات پر ان کی تحریروں کو پذیرائی ملنا شروع ہوگئی۔ اسی زمانے میں انہوں نے وزارت خزانہ جوائن کرلی جو زیادہ دیر نہ چل سکی۔ پیٹر اور مارگریٹ کی شادی نے اس وقت کی لیبر مومنٹ کے دو بڑے سیاسی گھرانوں کو بہت گہرے انداز میں ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب معاشیات پر پیٹر جے کی تحریروں کو وزارت خزانہ، بنک آف انگلینڈ اورکئی دیگر اہم مراکز میں ’’رہنما ڈاکومنٹ‘‘ کے طور پرلیا جاتا تھا۔ 40برس کی عمر میں جیمز کہلاہن جو اس وقت وزیراعظم تھے نے اپنے داماد پیٹرجے کو امریکہ میں اپنا سفیر مقرر کردیا۔ اس تقرری پر برطانیہ میں تنقید بھی ہوئی مگر کابینہ اور وزیرخارجہ ڈاکٹر ڈیوڈ اون ایم پی نے اس تعیناتی کا بھرپور دفاع کیا۔ 2 1/2برس کے اس دورانیہ میں پیٹر جے نے امریکہ بھر کے اہم تجارتی مراکز کے کئی دورے کئے تاکہ امریکی انوسٹمنٹ کو برطانیہ لایا جاسکے اور دوسرا اہم کام انہوں نے یہ کیا کہ امریکہ کے اندر مضبوط آئرش لابی جس کے اندر آئی آر اے بھاری انداز میں کام کر رہی تھی اس کے بڑھتے اثرورسوخ کو روکا۔ تقریباً تین دہائیوںپر مشتمل دورانیہ میں صحافتی اور سیاسی دنیا کے ذکروفکر کے ہر موڑ پر پیٹرجے آپ کو کچھ نہ کچھ اہم کرتے ملتا ہے۔ 70کی دہائی میں پیٹرجے ایک اہم ٹی وی اینکر پرسن بن چکا تھا۔ پیٹرجے مرحوم ایک ٹرینڈ سیٹر صحافی تھا جو جس طرف گیا داستانیں چھوڑ گیا 70کی دہائی میں برٹش ٹیلیویژن پر ملکی اہم امور پر پیٹرجے ’’ویک اینڈ ورلڈ‘‘ پر پروگرام کرتے ملتا ہے اور اس دورانیہ میں اس کو کئی اہم صحافتی اور تعریفی اسناد بھی ملیں۔ پیٹر ایک ذہین و فطین صحافتی شخصیت تھا جس میں خوداعتمادی اور برجستہ گفتگو کی مہارت بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اسے اپنے میڈیا کیرئیر میں کئی بار جرنلسٹ آف دی ائیر اور پولیٹیکل جرنلسٹ آف دی ائیر کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔TV AM اور گڈمارننگ برٹین نام کے ٹیلیویژن پروگرام شروع کرنے میں بھی پیٹرجے دوسرے چند اہم اینکر پرسن کے ساتھ موجود تھا۔ ایک جرنلسٹک اجتماع میں جہاں کون کس کے لئے لکھتا ہے پر گفتگو ہو رہی تھی کے درمیان پیڑجے نے بہتوں کو یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ وہ صرف ’’دوٹرثری افسران اور گورنر بینک آف انگلینڈ کیلئے لکھتے ہیں‘‘۔ پیٹرجے ایک بہت بڑا صحافتی کریکٹر تھا جیسے کامیابی سے ہینڈل کرنا بھی اتنا ہی دشوار تھا۔ اپنے کیرئیر کے آخری حصہ میں انہوں نے بی بی سی جوائن کرلی اور 1999کے عام انتخابات کے بعد انہوں نے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ 24ستمبر کو 87 برس کی عمر کو اس دنیا کو داغ مفارقت دے گئے۔ بی بی سی کیلئے بحیثیت ’’اکنامک ایڈیٹر‘‘ ان کی طویل ترین ملازمت تھی ۔ پیٹر جے 70, 80, 90 کی دہائیوں میں برٹش صحافت کا وہ ستارہ تھے جس کی رہنما روشنی میں چلنا دوسرے صحافی اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ پیٹر کو اپنے اعلیٰ مرتبت صحافتی مقام کا احساس بھی تھا اور فخر بھی۔ انہوں نے سفارتکاری میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو بھی استعمال میں لایا،صحافتی دنیا کے اکثربڑے اعزازات بھی اٹھائے، صلاحیتوں سے بھرپوریہ شخصیت بھی زندگی کے آخری برسوں میں تنہائی کا شکار ہو کر 87برس کی عمر میں اپنے خالق سے جا ملی۔
یورپ سے سے مزید