فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اپنے سیاسی سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یحییٰ سنوار اسرائیلی فورسز سے بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے۔
خلیل الحیہ نے کہا کہ یحییٰ سنوار کی شہادت سے فلسطینی مزاحمتی تحریک نے مزید جوش پکڑ لیا ہے، یحییٰ سنوار کی شہادت غاصب اسرائیل کےلیے تباہی کا پیغام ثابت ہوگی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسرائیلی فوج نے حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ غزہ پٹی کے جبالیہ کیمپ میں حملے کے ایک فلسطینی کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا، شبہ ہے کہ اسکول حملے میں ملی لاش یحییٰ سنوار کی ہے۔
اسرائیلی ذرائع کا کہنا تھا کہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت جنوبی غزہ میں رفح علاقہ میں بم باری میں ہوئی، اسرائیلی فوج نے بمباری میں شہید مشتبہ لاش کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا تھا جو مثبت آیا، مکمل تصدیق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کو یورپی ملک بھیجا گیا۔
یاد رہے کہ 31 جولائی 2024 کو ایران میں ایک حملے میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یحییٰ سنوار کو حماس کا نیا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
غزہ میں پیدا ہونے والے یحییٰ سنوار نے تقریباً ایک چوتھائی صدی اسرائیل میں عمر قید کی سزا کاٹی۔ ان کو 1980 کی دہائی کے آخر میں اسرائیلی فوجیوں اور مشتبہ فلسطینی مخبروں کے قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جیل میں انہوں نے حماس کی صفوں میں ترقی کی، عبرانی زبان سیکھی اور اپنے اسرائیلی جیلروں کا مطالعہ کیا اور حماس کے قیدی جنگجوؤں میں ایک اہم شخصیت بن گئے۔
وہ اتنے مقبول ہوگئے کہ جب ان کی رہائی ہوئی، غزہ کے خان یونس میں ان کے گھر کے قریب حماس اور غزہ کے لوگوں نے جشن منایا تھا، گھر کے باہر سبز خیمے بھی لگائے گئے اور جھنڈیاں بھی لگائی گئی تھیں، اس موقع پر لوگوں کی ایک طویل قطار تھی، جو انہیں گھر آنے پر خوش آمدید کہنے کے منتظر تھے۔
پس منظر اور ابتدائی زندگی
19 اکتوبر 1962 کو خان یونس کے ایک کیمپ میں آنکھ کھولنے والے یحییٰ ابراہیم حسن السنوار نے ابتدائی تعلیم خان یونس کے اسکول میں ہی حاصل کی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی، انہوں نے 5 سال تک یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ کونسل میں خدمات انجام دیں اور پھر کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی رہے۔
یحییٰ سنوار کی زندگی پر ایک نظر
یحییٰ السنوار کی شادی میں تاخیر کی بڑی وجہ ان کی مسلح جدوجہد اور طویل گرفتاری رہی اور پھر 2011 میں شالت (اسرائیلی فوجی کی رہائی) ڈیل کے تحت اسرائیلی جیل سے رہائی پانے کے بعد غزہ کی ایک مسجد میں ان کے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی اور پھر یحییٰ کا شمار حماس کی مزاحمتی تنظیم کے سرکردہ رہنماؤں میں ہونے لگا۔
حماس سربراہ کی جوانی 1980 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں گزری، جو فلسطین کی آزادی کے لیے ایک اہم دور سمجھا جاتا ہے۔
حماس میں شمولیت اور قیادت کا سفر
یحییٰ سنوار نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی رہنمائی میں 1980 کی دہائی میں حماس میں شمولیت اختیار کی، وہ جلد ہی تنظیم کے اندرونی سیکیورٹی یونٹ کے سربراہ بن گئے، یہ یونٹ اسرائیلی حکام کےلیے جاسوسی کرنے والوں کی نشاندہی کرنے اور سزا دینے کےلیے ذمہ دار تھا۔
قید اور رہائی
یحییٰ سنوار کو 1988 میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور متعدد قتل کے الزامات میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے اسرائیل کی جیلوں میں تقریباً 22 سال گزارے جہاں ان کے نظریات اور ان کی عسکری صلاحیتوں میں مزید پختگی آئی۔
انہیں 2011 میں ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا گیا۔ یہ رہائی انہیں حماس کے اندر ایک مضبوط مقام دلوانے کا سبب بھی بنی۔
حماس کی قیادت میں کردار
رہائی کے بعد یحییٰ سنوار نے تیزی سے حماس میں اپنی پوزیشن مضبوط کی۔ 2017 میں انہیں حماس کے غزہ پٹی کے لیے سیاسی دفتر کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ ان کے اس عہدے نے انہیں حماس کے عسکری اور سیاسی ونگز کے درمیان ایک رابطے کا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔
سنوار کو حماس کی حکمت عملی میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والا رہنما مانا جاتا تھا، خصوصاً اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور مسلح جدوجہد کے حوالے سے۔ ان کے فیصلے اکثر سخت گیر ہوتے تھے اور وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا سمجھوتے کے حامی نہیں سمجھے جاتے تھے۔
حماس کے موجودہ حالات اور سنوار کی قیادت
اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے خلاف حملوں کے بعد یحییٰ سنوار زیر زمین چلے گئے تھے اور ان کی تلاش اسرائیل کےلیے ایک اولین ترجیح بن گئی تھی۔ اسرائیلی فوج نے متعدد بار غزہ میں یحییٰ سنوار کو تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ مسلسل اسرائیلی جاسوسی اور حملوں سے بچنے میں کامیاب رہے تھے۔
یحییٰ سنوار کی قیادت میں حماس نے ناصرف اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کیا بلکہ فلسطینی عوام کے درمیان اپنی مقبولیت کو بھی برقرار رکھا۔ ان کی حکمت عملی نے حماس کو تنقید کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور مزاحمتی تحریک کے طور پر قائم رکھا۔
شخصیت اور اثرات
یحییٰ سنوار کو ایک کرشماتی اور سخت گیر رہنما کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو اپنے مقاصد کے حصول کےلیے کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان کی قیادت نے حماس کو ایک مضبوط عسکری اور سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا جو ناصرف اسرائیل بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کےلیے بھی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔
غزہ میں جاری حالیہ جنگ کے ابتدائی تین ہفتوں کے بعد یحییٰ السنوار نے اسرائیل کو پیشکش کی تھی کہ یرغمال بنائے گئے تمام اسرائیلیوں کے بدلے قید بنائے گئے تمام فلسطینیوں کو رہا کر دیا جائے لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حماس کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے زمینی کارروائی کا فیصلہ کیا جس کا نقصان انہیں مزید اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور فوجی گاڑیوں کی تباہی کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔