ایک روز "شہاب صاحب" کی اپنی بیگم سے قالین خریدنے کے معاملے پر تکرار ہو گئی، شہاب صاحب سفید قالین خریدنا چاہتے تھے جب کہ بیگم کو اعتراض تھا، لکھتےہیں،’’عفت اٹھ کر بیٹھ گئی اور استانی کی طرح سمجھانے لگی۔
ہمارے یہاں "ابن انشا" آتا ہے پھسکڑا مار کرفرش پر بیٹھ جاتاہے، ایک طرف مالٹے دوسری طرف گنڈیریوں کا ڈھیر۔ "جمیل الدین عالی" آتاہے فرش پر لیٹ جاتا ہے سگرٹ پر سگرٹ پی کر ان کی راکھ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیر دیتا ہے، ایش ٹرے میں نہیں ڈالتا۔
"ممتاز مفتی" ایک ہاتھ میں کُھلے پان دوسرے میں زردے کی پڑیا لیے آتا ہے۔ "اشفاق احمد" قالین پر اخبار بچھا کر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔ ملتان سے "ایثار راعی" آم اور خربوزے لے کر آئے گا۔ ڈھاکہ سے "جسیم الدین" کیلے اور رس گلے کی ٹپکتی ہوئی پیٹی لے کر آئے گا وہ یہ سب تحفے بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں۔
سال میں کئی بار "سید ممتاز حسین بی. اے" ساٹھ سال کی عمر میں ایم. اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فاؤنٹن پین چھڑک چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔ صرف ایک "راجہ شفیع" ہے؛ جب کبھی مکئی کی روٹی اور ساگ مکھن گاؤں سے لاتا ہے تو آتے ہی قالین پر نہیں انڈیلتا؛ بل کہ قرینے سے باورچی خانے میں رکھ دیتا ہے، کیوں کہ وہ نہ شاعر ہے نہ ادیب بل کہ ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔ "عفت" کی بات بالکل سچ تھی لہذا ہم نے صلح کر لی اور ایک میل خوردہ رنگ کا قالین خرید لیا گیا۔