• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

26 ویں آئینی ترمیم، 27 ویں ترمیم کے ذریعے سنگین خامی دور کیے بغیر آئینی بینچ نہیں بن سکتے، سابق اٹارنی جنرل

اسلام آباد: (انصار عباسی)…حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے آئینی پیکیج کی مسودہ سازی میں کچھ ایسے مسائل موجود ہیں جن کی وجہ سے الجھاؤ پیدا ہو رہا ہے لیکن ایک اہم ماہر قانون نے ’’سنگین خامی‘‘ کی نشاندہی کی ہے کہ اگر اس خامی کو 27 ویں ترمیم کے ذریعے حل نہ کیا گیا تو سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ 

زیادہ دور ہی نہیں ابھی ماضی قریب میں اپنا عہدہ چھوڑنے والے سابق اٹارنی جنرل نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سنگین خامی کی وجہ سے نیا جوڈیشل کمیشن بنایا جا سکتا ہے اور نہ کوئی آئینی ب نچ مقرر کیا جا سکتا ہے تاوقتیکہ پارلیمنٹ 27 ویں ترمیم کے ذریعے اس شق میں ترمیم نہ کرے۔ 

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ ’’میرے خیال میں اس وقت تک پرانے بینچ چلتے رہیں گے اور کوئی آئینی بینچ نہیں ہو گا۔‘‘

سابق اٹارنی جنرل نے حالیہ آئینی ترامیم کی زبان میں ابہام اور مسودہ سازی کی کچھ غلطیوں کی بھی نشاندہی کی لیکن آئینی بینچوں کے بارے میں ان کا نظریہ واقعی تشویش ناک ہے۔ 

دی نیوز نے وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان سے رابطے کی متعدد کوششیں کیں لیکن دونوں میں سے کسی نے جواب نہیں دیا، دونوں کو سابق اٹارنی جنرل کا نقطۂ نظر بھی ان کے واٹس ایپ پر بھیجا گیا لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی جواب دینے یا تبصرے کی زحمت نہ کی۔

آئینی بینچوں کی تشکیل میں پائی جانے والی خامی کے بارے میں سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 191 اے کے مطابق آئینی بینچوں میں نامزدگی اور تعین جوڈیشل کمیشن کو کرنا ہے، آرٹیکل 175A (1) کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں آئینی بینچوں کے سب سے سینئر جج یا ججوں کو شامل کرنا ضروری ہے جو کہ ابھی بننا باقی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آئینی بینچوں کے جن سینئر ترین جج یا ججز کا تقرر ہونا ابھی باقی ہے وہ جوڈیشل کمیشن کے ممبر بھی ہوں گے، یہ ایک سنگین خامی ہے کیونکہ نیا جوڈیشل کمیشن بنایا جا سکتا اور نہ کوئی آئینی بینچ مقرر کیا جا سکتا ہے تاوقتیکہ پارلیمنٹ 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس شق میں ترمیم نہ کرے، میرے خیال میں اس وقت تک پرانے بینچ قائم رہیں گے اور کوئی آئینی بینچ نہیں ہو گا۔

میڈیا پہلے ہی چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار میں ابہام کی بات کر رہا ہے، یہ الجھن اس صورتِ حال سے متعلق ہے جب 3 سینئر ترین ججز میں مقرر ہونے والا جج چیف جسٹس بننے کی پیشکش قبول نہ کرے۔

نئی آئینی ترمیم میں بظاہر یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایسی صورت میں باقی رہ جانے والے 2 سینئر ترین ججز میں سے سینئر ترین جج کے نام پر چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کے لیے غور کیا جائے گا۔

لیکن کابینہ کے کچھ اہم ارکان حتیٰ کہ (چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کے لیے 3 سینئر ججز میں سے ایک کا انتخاب کرنے والی) خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے کچھ ارکان یہ نہیں جانتے تھے کہ نئی آئینی دفعات میں کس بات کی عکاسی ہوتی ہے۔

دی نیوز کے رابطہ کرنے پر کمیٹی کے کم از کم 2 ارکان نے کہا کہ ٹاپ 3 میں کوئی نامزد جج چیف جسٹس بننے سے انکار کر دے تو چوتھے سینئر ترین جج کے نام پر غور کیا جا سکتا ہے۔

اس معاملے پر سابق اٹارنی جنرل نے دی نیوز کو بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کے تقرر کے لیے آرٹیکل 175A (3) تین مراحل کے تحت اقدام کا تصور پیش کرتا ہے۔

پہلے مرحلے میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججوں میں سے 1 کا نام نامزد کر کے بھیجتی ہے، بالفرض کمیٹی ارکان تینوں میں سے 1 یا پھر تیسرے سینئر جج کا نام تجویز کرتے ہیں اور وہ جج اپنی نامزدگی قبول کر لیتا ہے تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ جج نامزدگی قبول کرنے سے انکار کر دے تو ہمیں پہلی شرط (Proviso) کو دیکھنا ہو گا۔

دوسرا مرحلہ پہلی شرط: باقی رہ جانے والے سینئر ججز میں سے ایک جج کے نام پر غور کیا جائے گا۔ سادہ الفاظ میں پڑھیں تو اس کا مطلب یہ ہے باقی رہ جانے والے دو سینئر ججز میں سے ایک کے نام پر غور ہوگا۔ اس تشریح کی تائید ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ ’’تین سینئر ترین ججز میں سے باقی ماندہ۔‘‘ اگر آپ کمی کے بعد کوما کا تصور کرتے ہیں، تو صورتحال اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔

لہٰذا، اگر جسٹس یحییٰ انکار کر دیتے ہیں تو ایسی صورت میں دو ججز یعنی جسٹس منصور یا پھر جسٹس منیب کے نام پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کی تائید دوسری شرط (Proviso) میں لفظ ’’also‘‘ کے استعمال سے بھی ہوتی ہے۔ Also کا استعمال دوسرے نام کی کمی یا دوسری نامزدگی کے انکار کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے نہ کہ پہلی نامزدگی کے انکار یا پہلے نام کی کمی کی صورت میں۔ 

تیسرا مرحلہ، دوسری شرط: اس کے بعد چوتھے سینئر ترین جج پر غور کیا جا سکتا ہے اور اس طرح یہ پیشکش جاری رہ سکتی ہے۔ یہ صورتحال معنی خیز ہے کیونکہ، کمیٹی کو یہ معاملہ پہلے تین سینئر ججز کے ناموں پر غور اور ایک نامزدگی کرکے ختم کرنا ہوگا۔ کمیٹی کو تین سینئر ترین ججوں میں سے ترجیحات کو تبدیل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ 

کمیٹی ارکان صرف اسی صورت میں چوتھے سینئر جج کے نام پر غور کر سکتے ہیں جب پہلے دو سینئر ججز پیشکش کے بعد عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے یہ شق پڑھنے پر کچھ ایسے ہی سمجھ آ رہی ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی یہ تشریح، کہ ناموں میں پہلی کمی کے بعد وہ چوتھے جج کے نام پر جا سکتے ہیں، شق کی سادہ زبان سے متصادم ہے۔ اگر تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک جج کے بجائے وہ ’’تین سینئر ترین ججوں کے علاوہ‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے تو حکومت کی تشریح قابل قبول ہوگی۔ 

اس حوالے سے دی نیوز کے رپورٹر فخر درانی کا کہنا ہے کہ قانونی اور آئینی ماہرین نے سابق اٹارنی جنرل کی جانب سے جس خامی کی نشاندہی کی گئی ہے اس پر اختلاف رائے پیش کیا ہے۔ جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اگر سینئر ترین ججوں کو آئینی بنچ اور جوڈیشل کمیشن کے ممبران کے طور پر نامزد کیا جاتا ہے تو پھر کسی ترمیم کی ضرورت نہیں رہے گی۔ 

انہوں نے کہا کہ آئین کی مختلف شقوں کو ہم سنکرونائیز اور ہارمونائز کرنے کی ضرورت ہے۔سینئر قانون دان اور ماہر آئین وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تصدیق کیلئے متن موجود نہیں ہے۔ اگر سابق اٹارنی جنرل جو بات کہہ رہے ہیں وہ حقیقتاً درست ہے تو ان کا مشاہدہ درست ہے۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کی رائے ہے کہ اگر آئینی بنچ کی تشکیل کیلئے جوڈیشل کمیشن کے دو یا تین ارکان دستیاب نہ ہوں تو دستیاب ارکان آئینی بنچوں کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور اس کیلئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔

اہم خبریں سے مزید