• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر … لیسٹر
بدقسمتی سے ہماری قوم تعصب کا شکار ہے۔ یہی تعصب ہمیں ناانصافی پر اکساتا ہے، اگر آپ غور کریں تو یہ حقیقت کھل کرعیاں ہوگی کہ ہم مذہبی، سیاسی، معاشرتی، گروہی، علاقائی اور مفاداتی تعصب کا بری طرح شکار ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ متعصبانہ مواد سے پوری طرح لیس ہیں۔ اختلافی امور میں ہم ایک دوسرے کی بات سننے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوتے۔ تیس سے چالیس برس قبل ہمارا معاشرتی رویہ ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اختلافی معاملات پر لوگ سیر حاصل گفتگو کیا کرتے تھے لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ اب آغاز میں ہی سخت جملے سننے کو ملتے ہیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گویا تبادلہ خیال کی گنجائش ہی باقی نہیں۔ ہماری سیاست دیکھیں ہم اپنے ممبران کو صلاحیت کی بجائے عصبیت کی بنیاد پر منتخب کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں علم ہوتا ہے کہ باصلاحیت اور دیانت دار افراد بھی میدان میں موجود ہیں۔ لیکن ذات برادری کی آڑ میں ہم خود بددیانت افراد کو منتخب کرتے ہیں اور بعدازاں اپنی قسمت کو روتے ہیں۔ فرقہ وارانہ تعصب بھی بہت زیادہ ہے کہ لوگ دین اسلام کی بجائے مسلک کو موضوع بناتے ہیں جس میں اپنے مسلک کو ہر حال میں حق پر مبنی ثابت کرتے ہیں اور مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف فتوے دے دیتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا اندازِ گفتگو ایسا ہوتا ہے جیسے مخالفین کو جہنم بھیجنے کا اختیار بھی گویا انہیں ہی حاصل ہے (نعوذ باللہ)۔ معاشرتی طور پر دیکھیں کہ گھریلو اور خاندانی جھگڑوں کی بنیاد ذاتی اور گروہی مفادات ہوتے ہیں۔ یہی حال دیگر عصبیتوں کا ہے۔ ایک تعصب لسانی اور علاقہ پرستی کا ہوتا ہے۔ اس میں بھی ہم ساری معقولیت کو ترک کر کے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ حقوق اگر پامال ہو رہے ہوں تو اس کے لیے جدو جہد جائز ہوتی ہے لیکن خود کو دوسروں سے بالادست سمجھنا اور دوسروں کو حقیر جاننا کسی صورت جائز نہیں۔ یہ ایسی بیماری ہے جس نے دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا تھا۔ عصبیت کی سب سے بڑی خرابی ناانصافی ہوتی ہے۔ اس میں مبتلا ہو کر ہم اپنے گروہی مفادات کی خاطر ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ گویا عصبیت نا انصافی کا زینہ بن جاتی ہے۔ حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایات ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑے۔ اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بنا پر مرے‘‘۔ (سنن ابوداؤد)۔ نبی اکرمﷺ سے کسی نے عصبیت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’عصبیت یہ ہے کہ تو ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کرے‘‘۔ یاد رہے کہ اپنی قوم اور خاندان سے محبت کرنا اور ان کا خیال رکھنا عصبیت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عصبیت کی بجائے بار بار عدل و انصاف کی تلقین کی ہے۔ مثلاً سورۂ مائدہ میں فرمایا گیا ’’اے ایمان والو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو یہ خدا ترستی کے زیادہ قریب ہے‘‘۔ درحقیقت امت مسلمہ کی اصل ذمہ داری یہی ہے کہ وہ انصاف کے علمبردار بن کر کھڑے ہوں۔ مسلمان جتنا احکام الٰہی کے مطابق زندگی گزارے گا اور انصاف کی سربلندی کے لیے کام کرے گا، وہ اتنا ہی اپنے رب کے قریب ہوتا ہے۔ عدل کے راستے میں دو چیزیں حائل ہوتی ہیں۔ ایک اپنی قوم، اپنے قریبی عزیز و اقارب اور دوستوں کی محبت اور دوسری مخالفین سے دشمنی لیکن اسلام ہمیں ہر حال میں عدل کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں سورۃ النساء کی آیت 135 میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔ ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بنو۔ اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے اگرچہ یہ شہادت تمہارے اپنے نفسوں کے خلاف ہو یا تمہارے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو‘‘۔ اس آیت سے یہ حقیقت کھل کر عیاں ہوتی ہے کہ ہمیں ہر حالت میں عدل و انصاف کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنی چاہئے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا یہ رویہ اپنا لیں تو کسی کے بھی حقوق پامال نہیں ہوں گے۔ آج ہم میں عدل و انصاف کی بجائے انتشار، نفرت، تکبر، انانیت، علاقائیت، قوم پرستی، تفرقہ بازی جیسی قباحتوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ انہی خرابیوں کے باعث ہمارے معاشرے کا سکون برباد ہو گیا ہے۔ ہمیں ان خرابیوں کو ترک کر کے عدل و انصاف کا راستہ اپنانا چاھیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے، آمین۔
یورپ سے سے مزید