• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈ پارک۔۔۔ وجاہت علی خان
بیروت اور اس کے سرحدی علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں میں بمباری، میزائل اور ڈرون حملے معمول بن چکے ہیں۔ ملک بھر میں ہائی ریڈ الرٹ ہے، ماسوائے لبنان کی اپنی ائر لائن کے دنیا بھر کی ائرلائنز اپنی پروازیں لبنان کیلئے معطل کر چکی ہیں، لبنان میں ہزاروں افراد جانیں گنوا چکے لیکن ان جاں گسل حالت میں بھی ایک صحافی ہونے کے ناتے میں ان واقعات کا چشم دید گواہ ہونا اور انہیں ضبط تحریر میں لانا چاہتا تھا اور المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئر مین عبدالرزاق ساجد بھی اپنا انسانی فریضہ کماحقہ اور بہر صورت نبھانے پر کمر بستہ اور لبنان میں بے گھر ہو چکے خانماں برباد افراد کو ہر ممکن ریلیف پہنچانا چاہتے تھے لیکن یہ خطرناک سفر نہ کرنے کیلئے ہمیں ہر طرف سے اور ہر پہلو سے خطرات کی نشاندہی کی گئی ۔برطانوی حکومت کی ایڈوائس دکھائی گئی لیکن ادھر تو ارادہ مصمم ہو چکا تھا اس لئے رخت سفر باندھ لیا اور ائر پورٹ پہنچ گئے۔ لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ سے اندازہ ہو گیا کہ ہم کس قدر کٹھن اور پر خطر سفر پر روانہ ہو رہے ہیں، چیک ان ڈیسک پر تواتر کے ساتھ پوچھا گیا کہ ان حالات میں لبنان جانے کی وجہ کیا ہے ، پھر یہ کہ کچھ سال قبل آپ فلسطین اور اسرائیل کیوں گئے تھے۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو جہاز پر سوار ہونے سے پہلے ایک بار پھر لندن پولیس اور خفیہ والوں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور ایک گھنٹے بعد ایڈریس، فون نمبر اور پاسپورٹ کی تصاویر لے کر جانے کی اجازت دی۔ بیروت سے ابھی کوئی25 منٹ کے فاصلے پر تھے تو جہاز کی کھڑکی سے دور آسمان میں تواتر کے ساتھ آگ کے گولے دکھائی دیتے رہے جو اس بات کے شواہد تھے کہ گھمسان کا رن جاری ہے آدھے سے زیادہ ہمارا جہاز خالی تھا ہمارے علاوہ جتنے مسافر تھے وہ لبنان کے شہری تھے وہ بھی حیران تھے کہ یہ دو لوگ برستی آگ میں کہاں اور کیوں بیروت جا رہے ہیں۔ بیروت کے ہوائی اڈے پر ہو کا عالم تھا رن وے پر صرف ایک ٹوٹا پھوٹا جہاز کھڑا تھا ائر پورٹ کے اندر بھی سناٹا تھا، جب ہم امیگریشن کاؤنٹر کے قریب پہنچے تو دو تین افسر لپک کر ہمارے سامنے آئے انہوں نے ہمارے نام لئے تو ہم یہ سمجھے کہ بیروت میں ہماری معاون مقامی این جی او نے کوئی پروٹوکول رکھوایا ہے لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ بیروت آنے اور ماضی میں اسرائیل جانے کی ہماٹری ایک اور تقتیش شروع ہو چکی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لبنان حکومت نے اپنی ویب سائیٹ پر لکھ رکھا ہے کہ جو اسرائیل جائے وہ ہمارے ہاں نہ آئے۔ بہر کیف ایک تھکا دینے والے انٹرویو کے بعد ہمیں اس لئے اجازت دے دی گئی کہ المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کی ٹیم انسانی بنیادوں پر اُن کے لوگوں کی مدد کیلئے یہاں آئی ہے۔ بیروت شہر میں بظاہر تو زندگی رواں دواں تھی لیکن بے گھر ہونے والے مہاجرین کا ایک سیلاب تھا جو ساحل کی طویل پٹی، یونیورسٹیز، کالجز اور سکولز کی عمارتوں میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ یوں تو عوام الناس کے حوصلے بلند تھے لیکن انجانا خوف، مایوسی اور غصے کے اثرات بھی نمایاں تھے۔ بیروت اور ملک کے دوسرے حصوں خصوصا سرحدی علاقوں میں حالات انتہائی معانی ناگفتہ بہ ہیں المصطفیٰ نے زیادہ تر انہی علاقوں میں بے گھر ہونے والوں میں کھانے پینے کی اشیا اور کیش واؤچر تقسیم کئے اور ایک سرحدی علاقے میں کچن بھی قائم کر دیا ہے جہاں سے ان لوگوں کو دو وقت کا تازہ کھانا مہیا کیا جائے گا۔ ہم نے تباہی و بربادی کے ایسے تکلیف دہ اور درد ناک مناظر دیکھے ہیں کہ الامان الخفیظ، غزہ کے بعد لبنان کے شہر اور دیہات ملبے کا ڈھیر بن رہے ہیں یہاں بھی بوڑھوں بچوں جوانوں کی لاشوں کے انبار لگائے جا رہے ہیں حالات کس قدر افسوسناک ہیں یہ ذکر آئندہ کالم میں نظر قارئین کروں گا۔ ( جاری ہے)
یورپ سے سے مزید