• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

PIA نجکاری، 85 ارب مانگے، 10 ارب بولی، واحد بولی دینے والی کمپنی کی پیشکش مسترد، پرائیویٹائزیشن موخر

ا سلام آباد (،نیوز ڈیسک،ایجنسیاں ،فاروق اقدس) قومی ایئرلائن کی نجکاری کیلئے حکومت کو خسارے اور مایوسی کا سامنا، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں اجلاس میں پی آئی اے کے 60 فیصد شیئر فروخت کرنے کی منظوری دی گئی ۔ 85 ارب روپے کی ڈیمانڈ، واحد پیشکش 10 ارب روپے، بولی مسترد نجکاری کا عمل موخر، ترجمان قومی ایئر لائن کا کہنا ہے صرف لندن ہیتھرو کے روٹ کی قدر 100 ملین ڈالر جو 30 ارب روپے بنتے ہیں، پراپرٹیز، اثاثہ جات اور 33 جہاز شامل، واحد بولی دہند ہ کا تجربہ رئیل اسٹیٹ کے علاوہ کچھ نہیں، غیر سنجیدہ بولی ایک جہاز کی قیمت کیلئے بھی ناکافی ہے، صورتحال کے یہ حوالے بھی قومی معیشیت کے کسی المیے سے کم نہیں، جس کی تفصیلات قومی ایئر لائن کے ترجمان نے گفتگو کرتے ہوئے بیان کیں۔حکومت نے کہا کہ کمپنی بولی کو کم از کم مقررہ قیمت کے مطابق بنائے، دوسری جانب بلیو ورلڈ سٹی کے چیئرمین سعد نذیر اپنی بولی پر قائم رہے اور کہا کہ اگر حکومت ہماری بولی قبول نہیں کرنا چاہتی تو ہم اس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔بولی کے عمل میں حصہ نہ لینے والے تین گروپوں کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ انہیں طویل دورانیے کے دوران حکومت کی پی آئی اے کے لیے کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے خدشات ہیں۔ ایک کمپنی کے ایگزیکٹو نے نئی حکومت کے آنے کے بعد پالیسی کے تسلسل کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔حکومت نے فوری طور پر ان خدشات کے حوالے سے رد عمل دینے کی برطانوی خبر رساں کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے صورتحال کو پی آئی اے کی بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نجکاری کےعمل سے بہت زیادہ امید تھی، پی آئی اے دنیا کے چند پرانے اداروں میں سے ایک ہے، اتنی کم بولی بدقسمتی ہے، پی آئی اے ایک منافع بخش ادارہ ہے۔ ہمارے صرف لندن ہیتھرو کے روٹ کی قدر ہی 100 ملین ڈالر ہے جو کہ 30 ارب روپے بنتے ہیں، جس میں پراپرٹیز، اثاثہ جات اور 33 جہاز شامل ہیں ، ہمارے پاس 17 اے 320 طیارے ہیں اور ایک اے 320 طیارے کی قیمت 120 سے 150 ملین ڈالر ہے، نیا اے 320 ہو تو اس کی قیمت 30 ارب روپے سے زائد بنتی ہے ،اگر ہمارے جہاز پرانے ہیں تو چلیں آپ اس کی تھوڑی کم قیمت لگا لیں۔ ترجمان پی آئی اے نے کہا کہ بولی کنفیوژن مائنڈ سیٹ کے دوران ہوئی، پی آئی اے ایک بین الاقوامی ادارہ ہے اور اسے چلانے کیلئے بہت زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑتی، لیکن فارن سرمایہ کار اس پورے پراسس سے دور رہے۔ جو سرمایہ کار آئے وہ پی آئی اے کی بُکس، اور اثاثوں کو صحیح طریقے سے پہچان نہیں سکے،نجکاری کے عمل میں کوئی مغربی ملک یا کمپنی شامل نہیں تھی، نجکاری کمیشن کی جانب سے زیادہ سے زیادہ یہ کیا گیا تھا کہ دوست ممالک سے ہم رابطہ کریں ، لیکن ان میں سے کوئی بھی ان آٹھ کمپنیوں میں شامل نہیں تھا جو ابتدائی طور پر آئی تھیں۔ عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ اب ہمیں سارا کام ازسر نو کرنا پڑے گا، شروع سے تیاری کرنی پڑے گی۔ خیال رہے کہ قومی پرچم بردار پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کی نجکاری کا معاملہ ایک بار پھر التوا کا شکار ہو گیا ہے ،یہ شہباز حکومت اور اس کے پالیسی سازوں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ واحد بولی لگانے والی کمپنی بلیو ورلڈ نے پی آئی اے کی قیمت صرف دس ارب روپے لگائی جو نجکاری کمیشن کی جانب سے کم سے کم قابل قبول پچاسی ارب روپوں کی مالیت سے پچھتر ارب روپے کم ہے۔ پانچ دیگر منظور شدہ سرمایہ کاروں نے بولی میں حصہ ہی نہیں لیا۔ پی آئی اے کی تقسیم کے بعد بھی اس ادارے کے کھاتوں میں موجود اثاثوں کی کل مالیت 165 ارب روپے ہے، جس کے ساٹھ فیصد حصص جو نجکاری کیلئے پیش کئے گئے تھے ان کی مالیت99 ارب روپے ہے۔ آج کی ناکام بولی پرائیوٹائیزیشن کمیشن کے فیصلہ سازوں کی کارکردگی اور حکمت عملی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سوا سال پر محیط نجکاری کا یہ عمل بنا کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوا ہے۔ جو مقامی سرمایہ کار اس عمل میں شامل ہوئے، وہ بار بار نجکاری کمیشن اور ان کے تکنیکی مشیر کی جانب سے مہیا کردہ غلط اعداد و شمار اور غلط بیانی پر نالاں رہے۔

اہم خبریں سے مزید