• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی فنڈنگ سے اجناس کے کاشتکاروں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مدد ملی

لندن (پی اے) برطانیہ کی فنڈنگ نے کیلے، چاول، چائے اور کافی جیسی اہم چیزیں اگانے والے کسانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد کی ہے۔ انرجی اینڈ کلائمیٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای سی آئی یو) کی تحقیق کے مطابق برطانیہ نے کم از کم 348 منصوبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کی ہے، جس کے تحت آب و ہوا کی انتہاؤں کے ساتھ جدوجہد کرنے والے بیرون ملک مقیم کسانوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ برطانیہ نے جرمنی اور فرانس جیسی دیگر بڑی معیشتوں کے ساتھ مل کر چھ اہم کثیر جہتی کلائمیٹ فنڈز کے ذریعے سرمایہ کاری کی ہے۔ ان میں گرین کلائمیٹ فنڈ شامل ہے، جو اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کے تحت قائم کیا گیا تھا اور اسے دنیا کا سب سے بڑا مختص کثیرالجہتی کلائمیٹ فنڈ سمجھا جاتا ہے۔ ای سی آئی یو کے تجزیئے سے پتا چلا کہ یہ منصوبے 111 ممالک پر محیط ہیں، جن میں سے 84 (76فیصد) برطانیہ کی سپر مارکیٹ شیلف پر فروخت ہونے والی خوراک اگاتے ہیں۔ ایک مثال کولمبیا ہے، جہاں برطانیہ میں کھائے جانے والے کیلے کا ایک تہائی (30فیصد) اگتا ہے۔ 2023میں 253ملین کلوگرام کیلے کی مالیت169ملین پونڈز تھی۔ کولمبیا کو ایمیزون بیسن کے دیگر حصوں کے ساتھ گزشتہ سال کے وسط سے غیر معمولی خشک سالی کا سامنا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ خشک سالی، سیلاب، کیڑوں اور بیماریوں کی بڑھتی ہوئی تعدادکیلے کے معیار اور پیداوار کو کم کرتے ہیں۔ ای سی آئی یو نے دیکھا کہ کسانوں کی مدد کرنے کے لئے برطانیہ اور دیگر ممالک نے گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت ایک پروجیکٹ کے ذریعے سرمایہ کاری کی ہے، جو پانی کے زیادہ موثر استعمال اور موسمیاتی اثرات کے لئے زیادہ برداشت کرنے والی اقسام کی کاشت کے قابل بناتا ہے۔ دریں اثناء پاکستان، جو بھارت کے بعد برطانیہ کا دوسرا سب سے بڑا چاول فراہم کرنے والا ملک ہے، جس نے 2023میں 94ملین پونڈز مالیت کا 89 ملین کلو گرام چاول فراہم کیا تھا، اس سال مہلک سیلاب، طویل گرمی کی لہروں اور زیادہ نمی کی وجہ سے متاثر ہوا۔ یہ اثرات چاول کے پودوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور کھپرا بیٹل جیسے کیڑوں اور بیماریوں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کے مطابق برطانیہ ملک میں کسانوں کو چاول کے ساتھ ساتھ دیگر اہم برآمدی اجناس جیسے گندم، گنے اور کپاس کے کئی منصوبوں کے ذریعے مدد کر رہا ہے ان اقدامات سے کسانوں کو پانی کے انتظام، انٹرکراپنگ ، ملچنگ، گرمی، خشک سالی اور نمک برداشت کرنے والی فصلوں کی کاشت اور انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ (آئی پی ایم ) کی تربیت دے کر ان کی استعداد کار بڑھانے میں مدد مل رہی ہے۔ ای سی آئی یو میں بین الاقوامی پروگرام کے سربراہ گیرتھ ریڈمنڈ کنگ نے کہا کہ ہم ایک دوسرے پر منحصر دنیا میں رہتے ہیں، جس میں سمندر پار کاشتکار موسمیاتی انتہا پسندی کی پہلی لائنوں پر ہیں، جو برطانیہ میں ہمیں کھانا بیچ کر روزی کماتے ہیں۔ یہ کچھ ایسے لوگ ہیں، جنہیں برطانوی حکومت جرمنی اور فرانس جیسی دیگر بڑی معیشتوں کے ساتھ بیرون ملک سرمایہ کاری کے ذریعے سپورٹ کرتی ہے۔ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ان پر حاوی ہو جاتے ہیں تو ان کی روزی روٹی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور برطانیہ کی خوراک کی حفاظت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں برطانیہ کی اہم اجناس کی فصلیں موسمیاتی تبدیلی سے منسلک گیلے موسم کی زد میں ہیں، کئی سپلائر ممالک میں کلیدی اجناس کی بیک اپ درآمدات بھی آب و ہوا سے چلنے والی انتہاؤں کے نیچے ڈوب رہی ہیں۔ تجزیہ زرعی لچک کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جن کی مالی اعانت صرف چھ اہم کثیر جہتی کلائمیٹ فنڈز سے ہوتی ہے۔ کلائمیٹ انویسٹمنٹ فنڈز (ای آئی ایفس) گرین کلائمیٹ فنڈ (جی سی ایف) اڈاپٹیشن فنڈ (اے ایف) اور گلوبل انوائرمنٹ فیسیلٹی (جی ای ایف) فنڈ (ایل ڈی ایف سی) فنڈاور خصوصی موسمیاتی تبدیلی فنڈ (ایس سی سی ایف) جو کہ سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کی میزبانی کرتا ہے۔برطانیہ نے اقوام متحدہ کے بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی (آئی ایف اے ڈی) میں بھی حصہ ڈالا ہے، جو کہ سختی سے ایک موسمیاتی فنڈ نہیں ہے۔ اگرچہ اس تجزیئے میں شامل نہیں ہے لیکن اس کا ایک موسمیاتی پروگرام ہے جسےایڈاپٹیشن فار سمال ہولڈر ایگریکلچر (اے ایس اے پی) کہا جاتا ہے۔ یہ 50سے زیادہ ممالک میں کام کرتا ہے اور اس نے آٹھ ملین سے زیادہ چھوٹے پیمانے پر کسانوں کی مدد کی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔ ای سی آئی یو نے کہا کہ ملک دو طرفہ طور پر تنظیموں کی بھی مدد کرتا ہے اور اس لئے زرعی لچکدار منصوبوں کی کل تعداد، جس میں وہ سرمایہ کاری کرتا ہے، ممکنہ طور پر تجزیہ میں دکھائی گئی تعداد سے زیادہ ہے۔