• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کینیڈا میں امیگریشن ویزے محدود کرنے پر پاکستانی فکرمند

لندن (جنگ نیوز) میں تربیت یافتہ ڈاکٹر ہوں اور کینیڈا کے مستقل ویزا کے لیے تقریباً ایک سال سے درخواست جمع کروا رکھی ہے۔ اب سنا ہے کہ کینیڈا نے مستقل رہائش اختیار کرنے والوں کے ویزوں میں کمی کا اعلان کیا تو کچھ پریشانی ہے۔ مجھے تو بڑی امید تھی کہ میرا مستقل ویزا لگ جائے گا۔ یہ کہنا ہے خاتون ڈاکٹر نوشین جمال (فرضی نام) کا جنہوں نے ذہن میں اپنے مستقبل کے حوالے سے کئی منصوبے سوچ کر امیگریشن کے لیے گزشتہ سال اپلائی کیا تھا۔ تاہم کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو حکومت نے امیگریشن کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی کا اعلان کرتے تارکین وطن کی تعداد میں کمی کا اعلان کیا ہے اور اس کی وجہ آبادی میں اضافہ کو روکنا بتایا ہے۔ بی بی سی کی خصوصی رپورٹ کے مطابق تبدیل شدہ پالیسی کے مطابق اب کینیڈا نے 2025 تک مستقل ویزے کا ٹارگٹ پانچ لاکھ سے کم کرکےتین لاکھ 95 ہزار کردیا ہے جو کہ پہلے کے مقابلے میں 21 فیصد کم ہے۔اس اعلان نے امیگریشن کے خواہشمند ان تمام افراد کے لیے پریشانی کی لہر دوڑا دی ہے جنھوں نے کینیڈا میں مستقل سکونت اختیار کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ ڈاکٹر نوشین جمال کہتی ہیں کہ انھوں نے کینیڈا کے مستقل ویزہ کے لیے کافی وقت لگا کر اپلائی کیا تھا اور مستقبل کی ساری منصوبہ بندی کینیڈا ہی میں رہائش اختیار کرنا تھی۔ ’میرے بھائی پہلے ہی کینیڈا میں جا کر سیٹ ہوچکے تھے۔ اب اگر کینیڈا حکومت نے ایسا کوئی فیصلہ کیا ہے اور مجھے ویزہ نہ ملا تو اس کے میرے اور میرے خاندان کیلئے کافی منفی اثرات ہوں گے۔ اسی طرح کی صورتحال محمد نذر تنولی کے ساتھ بھی ہے۔ محمد نذر نے انگلش زبان میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی الیکڑیشن کا کورس کیا۔ مطلوبہ تجربہ حاصل کرنے بعد کینیڈا کی امیگریشن کیلئے درخواست جمع کروائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں تو بڑا پر امید تھا اور مختلف ویب سائیڈز پر بھی دیکھا تھا کہ کینیڈا میں الیکڑیشن کی ملازمتیں بآسانی مل جاتی ہیں مگر اب یک دم ہی کہا جارہا ہے کہ ویزوں کی تعداد کم ہوچکی ہے یا ویزے نہیں دے جارہے تو سمجھ نہیں آتا کہ میں اب کیا کروں گا۔ یاد رہے کہ کینیڈا کی امیگریشن پالیسی میں مستقل رہائشی ویزہ دیا جاتا ہے جس کیلئے عموما پاکستان جیسے ترقی یافتہ ممالک کے مختلف شعبوں میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد بڑی تعداد میں درخواستیں جمع کرواتے ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک کے شہریوں کی کینیڈا کے سفارت خانوں میں بڑی تعداد میں درخواستیں موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریبا 15 لاکھ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ ان کے درخواستوں پر فیصلے سامنے آئیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو اور کینیڈا کے وزیر برائے امیگریشن مارک ملر نے مستقل ویزوں کی تعداد میں مزید کمی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 2027تک مستقل ویزوں کی تعداد کم کرکے تین لاکھ 65 ہزار کر دی جائے گی۔ اس کمی کی وجہ بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے کہا ہے کہ یہ کمی آگے دو سالوں میں کینیڈا میں آبادی کو بڑھنے سے روک دی گئی جس سے صوبوں کو اپنے صحت اور ہاوسنگ کے پروگرام کو بہتر کرنے کے لیے وقت ملے گا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈو نے مستقل ویزہ کی تعداد میں مزید کمی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وبائی مرض کورونا کے بعد جب ملک میں ملازمتوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جو امیگریشن پالیسی بنائی گئی اس کی سمت درست نہیں تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کینیڈا کو اپنے امیگریشن کے پروگرام پر فخر ہے جس نے ملک کی معیشت کو بہتر کر کے متنوع کمیونیٹر کو فروغ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کینیڈا کا امیگریشن سسٹم بہت شاندار ہے اور اپنے اندر تارکین وطن کے لیے لچک رکھتا ہے۔ مگر ہم وبا کے بعد ملک میں ملازمتیں کی ضرورت کو پورا کرنے اور آبادی میں اضافے کا توازن برقرار نہیں رہ سکے۔ بعض جائزوں کے مطابق اس وقت کینیڈا میں امیگریشن کے لیے رائے عامہ کم ہوتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے سماجی اور رہائش کی سہولتوں پر اثرات کا مرتب ہونا ہے۔ واضح رہے کہ کینیڈا کی مستقل ویزوں کی پالیسی سے پہلے ہی بین الاقوامی طلبا اور عارضی کارکنان یا وقتی ورک ویزہ کی تعداد کو کم کیا جاچکا ہے۔کینیڈا کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال کینیڈا کی آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ تارکین وطن تھے جن کی تعداد 97فیصد ہے۔ اس کے ساتھ کینیڈا میں بے روزگاری کی شرح 6.5فیصد تک بڑھ چکی ہے جو کہ نوجوان لوگوں میں 14فیصد ہے۔ ٹروڈو حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد کینیڈا نے 2015 میں ویزوں کا ہدف دو لاکھ 72ہزار سے بڑھا کر چار لاکھ 85 ہزار کر دی تھی جبکہ 2021میں کورونا وبا کے بعد اس میں بڑا اضافہ کیا گیا تھا۔ حکومت کو گھروں، صحت، سماجی خدمات کی سہولتوں میں اضافے کے بعد اتنا اضافہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس ماہ کے آغاز میں اینو ائرونکس رائے عامہ کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ 58 فیصد کینیڈین شہری محسوس کرتے ہیں کہ 1977کے مقابلے میں اب امیگریشن کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ عوامی رائے میں امیگریشن پالیسی کو اب موثر نہیں بلکہ مسائل سمجھا جارہا ہے۔ اس وقت کینیڈا میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 6.5فیصد تک پہنچ چکی ہے اور نوجوانوں میں یہ شرح 14 فیصد تک ہے۔ تاہم دوسری جانب تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے تارکین وطن کی تعداد کو کم کرنے کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ امیگرینٹ رائٹس نیٹ ورک کے مطابق یہ سمجھنا مناسب نہیں ہے۔ ان کےمطابق کینیڈا میں گھروں کی کمی یا سماجی صحت عامہ کی سہولتوں میں کمی کے ذمہ دار تارکین وطن نہیں ہیں۔ امیگرینٹ رائٹس نیٹ ورک کے مطابق کے مطابق یہ مسائل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی دہائیوں سے پالیسیوں کا نتجہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں موجود کئی ویزا کسنلٹنٹ کی رائے ہے کہ ڈاکٹر نوشین جمال اور محمد نذر تنولی جیسے ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اگر کینیڈا جارہے ہیں تو ان کواس نئی پالیسی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ہنر مندوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کیلئے زیادہ بہتر راستے پیدا ہوں گے۔ عبدل ریحان سن کنسلٹنٹ کمپنی میں کئی سالوں سے کینیڈا ویزا کنسلٹنٹ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کینیڈا کی معیشت سالانہ 18فیصد کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے جس کا سیدھا سادہ مطلب ہے کہ کینیڈا میں ہر سال 18فیصد ملازمتوں کے مواقع بڑھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے کینیڈا میں بے روزگاری کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم تھی اگر اب یہ تقریبا چھ فیصد بھی ہوچکی ہے تو یہ زیادہ بڑا فرق نہیں ہے بلکہ اس وقت کینیڈا کی جی پی گروتھ تیزی سے اوپر جارہی ہے۔ کینیڈا پہلے ہی ٹارگٹ پورا نہیں کررہا تھا۔ عبدل ریحان کا کہنا ہے کہ یہ ریکارڈ پر ہے کہ اس وقت کینیڈا پہلے ہی مستقل ویزے کا اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کررہا تھا۔ 2023میں یہ ٹارگٹ پورا نہیں ہوا ہے اورتقریباً اتنا ہی ہدف سے کم ہوا ہے جتنا اب کینیڈا کی حکومت نے اپنے اہداف کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پوری دنیا میں مختلف قسم کے ویزوں کی تقریباً 15لاکھ درخواستیں فیصلوں کی منتظر ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ویزوں کی درخواستوں پر فیصلے کرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ عبدل ریحان کا کہنا تھا کہ ہمیں تو بظاہر لگ رہا ہے کہ کینیڈا کی امیگریشن پالیسی میں بظاہر کوئی بڑا فرق نہیں آیا ہے۔ اتنا ضرور ہوا ہے کہ اب سیاحتی، طالب علم اور ورک پرمٹ پر جانے والوں کے لیے کچھ مسائل ہوں گے اور ان کے لیے اب وہاں پر جا کر کام کرنا یا مستقل رہائش اختیار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے ان لوگوں کو ضرور فرق پڑسکتا ہے جو کسی خاص شعبے میں ہنر مند نہیں ہیں جیسے کہ کوئی دفتری کام کرنے والے بھلے وہ بے شک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں یا مارکیٹنگ سمیت عام سمجھا جاتا ہے، ان پر ضرور فرق پڑے گا عبدل ریحان کے مطابق اب بھی 2027 تک جتنی بڑی تعداد میں ویزے جاری کرنے کا کہا گیا ہے وہ 2015 کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں تاہم کچھ پالیسیاں پہلے ہی تبدیل ہوچکی ہیں۔ جیسے سٹوڈٹنس ویزہ وغیرہ۔منیب احسان کینیڈا پرائم امیگریشن کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تبدیلیاں تو کافی عرصے سے کی جارہی ہیں۔ پہلے سٹوڈٹنس ویزے، عارضی ویزے یا سیاحتی ویزا پر جانے والے کینیڈا ہی میں جا کر اپنا ویزے کی نوعیت کو تبدیل کروا لیتے تھے۔ یعنی وہ مستقل ویزا حاصل کرلیتے تھے۔ طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں ہی سے مسقل ویزہ حاصل کرلیتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا اس کی بنیادی وجہ وہاں پر مختلف انفراسٹرکچر پر پڑنے والا بوجھ ہے۔ اب کینیڈا کہتا ہے کہ میں تارکین وطن کو خوش آمدید تو کہتا ہوں مگر مستقل ویزہ کے لیے صرف اس ہی شعبے کے لوگوں کو بلایا جائے گا جن کی کینیڈا میں ملازمتیں دستیاب ہوں گی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ اس وقت پاکستانیوں کیلئے کینیڈا کے سیاحتی ویزے مسترد ہورہے ہیں جب کہ مستقل ویزے دیے جارہے ہیں۔ منیب احسان کا کہنا تھا کہ اس وقت کینیڈا میں مسقل ویزہ کچھ مخصوص شبعوں میں مطلوبہ معیار اور قابلیت پوری کرنے والوں کو دیا جارہا ہے جس میں میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے، انجینئرز، ہنر مند افراد جن میں پلمبر، الیکڑیشن، تعمیراتی کام کے ماہر راج مستری وغیرہ اور ہنر مند افراد کو ویزے ملنے کا امکان کافی زیادہ ہوتا ہے اس میں یاد رکھا جائے کہ کینیڈا اب ان ہی لوگوں کو ویزا دے رہا ہے جو وہاں جا کر اس کی معیشت میں بہتری لاسکے نا کہ بوجھ بن جائیں۔
یورپ سے سے مزید