ڈاکٹر نعمان نعیم
یہ ایک سچائی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مال و دولت کا حصول،اس کی فراوانی،دولت مند اور صاحب ثروت ہونا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے انسان کی بے شمار دینی اور دنیوی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ دوسری جانب اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مال و دولت کی فراوانی عطا کی ہے، وہ دولت مند اور صاحب ثروت ہے، اور اپنے اس مال کو راہ خدا میں خرچ کرتا اور انفاق فی سبیل اللہ کے عمل سے وابستہ ہے، تو یہ ایک عظیم نیکی اور مال و دولت کا گویا حق ادا کرنا ہے،جس کی قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات میں بے شمار فضیلت بیان کی گئی ہے۔ جب کہ یہی ’’مال‘‘ امتحان اور آزمائش بھی ہے اور کبھی کسی کے لئے فتنہ یا فساد کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ یعنی مال ’’رحمت‘‘ بھی ہے اور ’’زحمت‘‘ بھی ۔
’’اسلام کا نظریہ ‘‘ یہ ہے کہ مال ودولت کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے انسان کو ایک خاص مدت تک استعمال کے لیے مال عطا فرمایا ہے۔قرآن کریم نے اس بات کو متعدد بار مختلف انداز سے ذکر فرمایا ہے۔ ایک جگہ فرمایا :’’وَاٰتُوْھُمْ مِنْ مَالِ اللہِ الّذِیْ اٰتٰاکُمْ‘‘یعنی ’’تم اپنے اس مال سے جو اللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے، مستحقین کو دیا کرو‘‘۔
اسی طرح دوسری جگہ فرمایا: ’’وَابْتَغِ فَیْمَااَتَاکَ اللہُ ا لْدَارَ الْاٰخِرَۃَ۔‘‘یعنی ’’جو مال اللہ نے تمہیں دیا اس سے آخرت کا گھر تلاش کرو۔‘‘مال و دولت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے اور اس نے انسان کو ایک خاص مدت تک استعمال کرنے کے لیے دیاہے، لہٰذا اسے یہ کلی اختیار ہے کہ وہ انسان کو اس بات کا پابند بنائے کہ مال کو کس طرح کمایا جائے اور کس طرح خرچ کیا جائے۔
آج کے دور میں کون سا ایسا مشکل سے مشکل کام ہے جو مال و دولت اور روپے پیسے وغیرہ کے بل بوتے پر نہ کرایاجاسکتا ہو؟ اسی خطرے کے پیش نظر آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلےنبی مہربان، محسن انسانیتﷺ نے اس بات کی پیش گوئی فرمادی تھی کہ میری اُمت کا فتنہ مال ہے ۔ چنانچہ حضرت کعب بن عیاضؓ فرماتے ہیں : ’’ میں نے حضورِ اکرمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’ہر اُمت کے لئے ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری اُمت کا فتنہ مال ہے۔‘‘ (ترمذی)
رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ کی قسم ! مجھے تمہارے اُوپر فقر و فاقہ کا خوف نہیں ،بلکہ اس بات کا خوف ہے کہ تم پر دُنیا کی وسعت ہوجائے، جیسا کہ تم سے پہلی اُمتوں پر ہوچکی ہے ، پھر تمہارا اِس میں دل لگنے لگے جیساکہ اُن کا لگنے لگا تھا ، پس یہ چیز تمہیں بھی ہلاک نہ کردے، جیساکہ پہلی اُمتوں کو ہلاک کرچکی ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)
ارشادِ ربّانی ہے: ’’ لوگو ! اللہ کا وعدہ یقیناً برحق ہے ، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکا دینے پائے ‘‘۔ (سورۃ الفاطر) مرنے کے بعد اللہ کے سامنے پیشی اور جواب دہی کا ہمیشہ استحضار رہنا چاہیے ، اس سے دنیا کی محبت کم ہوگی اور شیاطین کی گرفت سے محفوظ رہنا آسان ہوگا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی آسائشوں اور یہاں کے وسائل کو اپنی حیات کا مقصد اور ساری سرگرمیوں کا مرکز بنالیا جائے، جب کوئی انسان دنیوی عہدوں اور دنیوی مال و دولت کو اپنی توجہ و دلچسپی کا مرکز بنالیتا ہے اور اسے ایک مشن کے طور پر حاصل کرنا شروع کرتا ہے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے خود بخود اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور شریعت کی گرفت ڈھیلی پڑجاتی ہے، پھر وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس لیے کہ اس کی رگوں میں دنیا کی لذت بیٹھنے کی وجہ سے اللہ کا خوف ختم ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب کسی کو اللہ کا خوف اور کسی گرفت کا احساس نہ ہو تو اسے گناہوں اور بے حیائیوں سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی، آج جتنے جرائم اور بدکاریاں ہورہی ہیں ، تمام کے پیچھے یہی دنیا کی محبت کار فرما نظر آئے گی۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے ‘‘ (کنز العمال ، حدیث نمبر : ۶۱۱۴)قرآن کی مختلف آیات اور متعدد ارشادات رسول ﷺ میں دنیا کی مذمت اور اس کے طلب گار کی قباحت بیان کی گئی ہے۔
معروف محدّث حضرت سفیان ثوریؒ نے اپنے تجربات کی روشنی میں بہت ہی معقول اور صحیح بات کہی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ : ’’ اب سے پہلے دور نبوت وخلافت میں مال ایک ناپسندیدہ چیز سمجھا جاتا تھا ، لیکن ہمارے اس زمانے میں مال مؤمن کی ڈھال ہے اور فرمایا کہ اگر ہمارے پاس آج یہ درہم و دینار نہ ہوتے تو بادشاہ وامراء ہم کو اپنا رومال بنالیتے (یعنی باطل اغراض میں استعمال کرتے) آج جس شخص کے پاس یہ درہم و دینار ہوں تو انھیں اچھی حالت میں رکھے ، کیوںکہ یہ ایسا زمانہ کہ اگر آدمی محتاج وتنگدست ہوجائے توسب سے پہلے وہ اپنا دین بیچ دے گا ‘‘ (طبرانی)مال و دولت ایسی چیز ہے جس کے لالچ میں انسان اپنے ایمان کو بیچ ڈالتا ہے، دلوں میں نفاق اور ذہنوں میں کدورت بیٹھ جاتی ہے ، ایک شخص مالی محتاج ہونے کی وجہ سے ارباب دولت و ثروت کو اسلام کے پیغام حق سے واقف نہیں کراسکتا، ان کی ناراضی اور ہدایا و تحائف کے بند کردینے کے اندیشے ہوتے ہیں، عہدے داروں سے وہ آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرسکتا کہ بہت سے خطرات دل میں پیدا ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ ایک شخص کے دل میں دوسروں کے مال و دولت کا حرص پیدا ہو اور دنیوی عہدوں سے مرعوب ہوتا ہو تو وہ دعوت و تبلیغ کا کام کیا انجام دے سکتا ہے ؟ بلکہ ایسے افراد کا دین پر قائم رہنا بھی مشکل ہوجاتا ہے، شریعت اسلامی نے اپنے پیروکاروں کو حلال کمائی حاصل کرنے اور اس کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کی نہ صرف اجازت ، بلکہ بعض جگہوں میں اس کی ترغیب بھی دی ہے ، سورۃ الجمعہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو ، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے ‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :’’ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے ،اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر ، احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے ‘‘ (سورۃالقصص)مذکورہ آیات میں دنیا کے مال ومتاع کےحصول اور رزق کی تلاش کرنے کی صاف طور پر ہدایت دی گئی ہے، البتہ اللہ کے حقوق یاد رکھنے اور اس کے ذکر کی بھی تلقین کی گئی، تاکہ لوگ دنیا کمانے میں کہیں اپنے رب اور حقیقی و ابدی دولت وسعادت سے محروم نہ ہوجائیں۔
تاہم دنیا کے حصول اور اس سے بے نیازی کے درمیان بہت نازک فرق ہے ، جس کی رعایت اہل ایمان کے لیے نہایت ضروری ہے ، دنیا کے بغیر انسان کا گذ۱را بھی نہیں ہے اور دنیا سے اجتناب کی بھی تعلیم دی گئی ہے، دونوں کو جمع کرتے ہوے مولانا رومیؒ نے اچھی مثال دی ہے کہ ’’انسان کی مثال کشتی جیسی ہے اور دنیا کی مثال پانی جیسی ‘‘ جیسے پانی کے بغیر کشتی نہیں چل سکتی، اسی طرح انسان کے زندہ رہنے کے لیے دنیا اور اس کے اسباب چاہییں، اس کے بغیر گذر بسر مشکل ہے ؛ لیکن جس طرح پانی کشتی کے لیے اس وقت تک مفید ہے جب تک پانی کشتی کے ارد گرد ہے، اگر پانی ارد گرد اور نیچے رہنے کے بجائے کشتی کے اندر چلاجائے تو کشتی ڈوب جائے گی ، اسی طرح یہ دنیوی اسباب و وسائل جب تک دل و دماغ سے باہر ہیں اور محض انہیں زندگی گذارنے کے لیے سہارا اور نفع کے درجے میں رکھے جائیں، لیکن جب دنیا سے محبت کی جائے اور مال و دولت کو اپنے دل و دماغ میں بسالیا جائے تو یہی دنیا اب نفع کے بجائے نقصان کا باعث بن جائے گی۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں : ’’مال بمنزلہ ایک سانپ کے ہے، جس میں زہر بھی ہے اور تریاق بھی ، اور اس کے فوائد بمنزلہ تریاق کے ہیں اور اس کے نقصانات بمنزلہ زہر کے ہیں۔ سو جو شخص اس کے فوائد و نقصانات سے واقف ہوجائے وہ اس پر قدرت حاصل کرسکتا ہے کہ اس کے فوائد حاصل کرے اور اس کے نقصانات سے محفوظ رہے۔ اس میں فوائد تو دو قسم کے ہیں (۱) دُنیوی (۲) دینی۔ دُنیوی فوائد تو ہر ایک شخص جانتا ہے اس لئے اُن کے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ، البتہ دینی فوائد یہ ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ مال بالواسطہ یا بلا واسطہ عبادت کا سبب ہے۔
بالواسطہ تو اس طرح کہ اپنے کھانے پینے اور ضروریات میں خرچ کرے کہ یہ ضرورتیں اگر پوری نہ ہوں تو آدمی کا دل اُدھر مشغول رہتا ہے جس کی وجہ سے دینی مشاغل میں اشتغال کا وقت نہیں ملتا اور جب مال بالواسطہ عبادت کا ذریعہ ہے تو یہ خود بھی عبادت ہوا، لیکن صرف اتنی ہی مقدار جس سے دینی مشاغل میں اِعانت ملے اس سے زیادہ مقدار اس میں داخل نہیں اور بلا واسطہ یہ اس طرح عبادت کا سبب ہے کہ بعض عبادات جہاد اور حج وغیرہ روپے پیسے سے ہی ہوسکتے ہیں اور ویسے کرنا مشکل ہیں۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مال دوسرے لوگوں پر چار طرح سے خرچ کیا جاتا ہے: (۱) صدقہ جو غرباء اور مساکین پر کیا جائے ۔ (۲) مروّت ٗ جو اغنیاء پر دعوت، ہدیہ وغیرہ وغیرہ میں خرچ کیا جائے ۔ یہ قسم اگرچہ صدقہ کے زمرے میں نہیں آتی، تاہم یہ قسم بھی اپنے اندر دینی فوائد سموئے ہوئے ہے کہ اس سے باہمی تعلقات قوی ہوتے ہیں ، سخاوت کی بہترین عادت پیدا ہوتی ہے ۔ (۳) اپنی آبرو کا تحفظ ہوتا ہے۔
یعنی مال کا ایسی جگہ خرچ کرنا کہ جہاں اگر خرچ نہ کیا جائے تو کم تر لوگوں کی طرف سے بدگوئی ، فحش وغیرہ مضرتوں کا اندیشہ رہتا ہے۔ یہ بھی صدقہ کے حکم میں آجاتا ہے۔ چنانچہ حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنی آبرو کی حفاظت کے لئے جو خرچ کرتا ہے ،وہ بھی صدقہ کرتا ہے۔ (۴) مزدوروں کی مزدوری کی اُجرت دینا کہ آدمی بہت سے کام اپنے ہاتھ سے نہیں کرسکتا یا کرتو سکتا ہے لیکن اپنا یہ قیمتی وقت علم و عمل یا ذکر و فکر وغیرہ جیسے اُمور کے لئے بچا لیتا ہے تو یہ بھی ایک قسم کا مال کا دینی فائدہ ہے۔
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ مال سے عمومی خیر و بھلائی کے اخراجات نمٹائے جاتے ہیں جن میں کسی دوسرے معین شخص پر تو خرچ نہیں کیا جاتا ، البتہ عمومی فوائد اس سے ضرور حاصل ہوجاتے ہیں جیسے مساجد و مدارس کا بنانا، مسافر خانوں اور شفا خانوں کا بنانا وغیرہ وغیرہ وہ تمام رفاہی کا م کہ جن سے تمام لوگ ہمہ وقت مستفید ہوسکتے ہوں کہ یہ تمام کام صدقۂ جاریہ کے حکم میں آتے ہیں اور ان کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی انسان کو ملتا رہتا ہے اور ان سے فوائد حاصل کرنے والے اللہ کے نیک اور متقی لوگوں کی دعائیں بھی انسان کو پہنچتی رہتی ہیں۔