• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ہمارا گاؤں تلی سیداں واقع ضلع تورغر مشکوٹ تاکنڈ مختلف محلہ جات پر مشتمل ہے ،350 گھرانوں پر مشتمل ہے ، ہر محلے کا اپنا نام اور الگ مسجد ہے، ان تمام محلوں میں 14مساجد ہیں۔ گاؤں کی واحد سڑک اس علاقے کو اوگی بازار مانسہرہ سے ملاتی ہے ، پولیس چوکی سے تلی سیداں تک چار کلومیٹر روڈ کچا ہے۔

بیکری اور دودھ دہی کی دکان بھی نہیں ہے ،چار میڈیکل اسٹور ، تین حجام کی دکانیں، دو کپڑے کی اور دو درزی کی دکانیں ہیں ، ایک آٹاچکی ، ایک لوہار، ایک موچی اور پانچ عدد کریانے کی دکانیں ہیں۔ گاؤں میں بجلی، بینک، پوسٹ آفس ،تھانہ ،قصاب کی دکان ، پٹرول پمپ ، ویلڈنگ ورکس ، ٹائر پنکچر شاپ، سیمنٹ کی دکان، ایمبولینس ،ڈاکٹر ، مسافر خانہ، ہوٹل، کچہری عدالت، لیڈی ڈاکٹر وغیرہ جیسی بہت سی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں ، گاؤں کی کسی بھی مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا ، کیا یہاں جمعہ قائم کیاجاسکتا ہے ؟

جواب: نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے احناف کے نزدیک سات شرائط ہیں ،جن میں سے ایک ’’شہر ‘‘ ہونا ضروری ہے۔

(۱) ابو عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں : حضرت علیؓ نے فرمایا :’’شہر اور بڑے قصبےکے سوا جمعہ ہے، نہ تشریق نہ عیدالفطر نہ عید الاضحی ،(المصنف ابن ابی شیبہ ، جلد2،ص:101)‘‘۔(۲)حضرت حذیفہؓ نے فرمایا:’’دیہات والوں پر جمعہ نہیں ،جمعہ صرف شہر والوں پر ہے ،(المصنف ابن ابی شیبہ ، جلد2، ص:168)‘‘۔

علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ ’’تحفہ‘‘ میں امام ابو حنیفہؒ سے یہ روایت منقول ہے: شہر اس بڑی جگہ کو کہتے ہیں، جہاں گلیاں اور بازار ہوں ،مضافاتی علاقہ ہو اور اس میں ایک ایسا حاکم ہو جو اپنے اقتدار کے دبدبے (اور طاقت سے) اور اپنے (ذاتی )علم یا دوسرے کے علم سے (یعنی گواہی کے ذریعے ) مظلوم کو ظالم سے انصاف دلاسکے ،لوگ اپنے پیش آمدہ معاملات میں اس کی طرف رجوع کریں ،یہی صحیح تعریف ہے، (بدائع الصنائع ،جلد1، ص:385 )‘‘۔ اس تعریف کے لحاظ سے شہر کے ثبوت کے لیے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں: اشیائے ضرورت کے لیے بازار اور دکانیں۔ قوتِ حاکمہ اورعالمِ دین۔

نمازِ جمعہ قائم کرنا ایسا نہیں ہے کہ جو چاہے ،جب چاہے قائم کرلے ،شرائط کا پایاجانا لازم ہے۔ صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ؒ لکھتے ہیں: ’’ ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھاہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کرلیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا، یہ ناجائز ہے، اس لیے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کاکام ہے اور جہاں سلطنتِ اسلامی نہ ہو ،وہاں جوسب سے بڑا فقیہ سُنّی صحیح العقیدہ ہو ،اَحکام شرعیہ جاری کرنے میں سلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے ، ا س کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا اوریہ بھی نہ ہوتو عام لوگ جسے امام بنائیں، عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بناسکتے، نہ یہ ہوسکتا ہے کہ دوچار شخص کسی کو امام مقر رکرلیں ، ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں،(بہارِ شریعت ،جلداول، ص:764)‘‘۔)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ گاؤں /دیہات میں جمعہ قائم کرنے کے لیے مذکورہ شرائط کا پایاجانا ضروری ہے ، دیہات /گاؤں میں جمعہ قائم نہیں کیاجائے گا، اِن شرائط کے مفقود ہونے کی صورت میں کسی بھی دیہات میں جمعہ قائم نہیں کیا جائے گا ،البتہ اگر کہیں پہلے سے جمعہ جاری ہوتو اُسے بند نہیں کیاجائے گا۔ تاہم جمعہ پڑھنے کے بعد چار رکعات ظہر احتیاطی اداکی جائے گی۔