• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک مسجد تقریباً تیس سال سے قائم ہے، جسے حاجی امیر بخش نے وقف کیا اور مولانا غلام فرید نظامی کو مُتولّی بنایا، حاجی صاحب کو مسجد کے احاطے میں ایک طرف دفن کیا گیا، قبر کے اطراف کی جگہ پکا فرش بنا ہوا ہے اور نماز بھی پڑھی جاتی ہے، اب اس کی اولاد چاہتی ہے کہ اپنی ماؤں کو بھی وہیں دفن کریں ، حاجی امیر بخش کی چار بیویاں تھیں ، سب کی اولاد بھی ہے ، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا مسجد کے لیے وقف شدہ زمین میں ان کو دفن کرنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟،( مولانا غلام فریدنظامی ، ڈیرہ غازی خان)

جواب: عام مسلمانوں کی میتیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کی جائیں، مساجد اس کام کے لیے نہیں ہیں ۔’’وقف للّٰہ‘‘ کے شرعی معنیٰ ہیں: کسی چیز کو اپنی مِلک سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی مِلک کردینا، علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر الفرغانی لکھتے ہیں:’’اورصاحبین کے نزدیک وقف کے معنی ہیں :’’ نفسِ مال کو اللہ تعالیٰ کی مِلک پر روکنا‘‘، پس وقف کرنے والے کی مِلکیت موقوف(یعنی وقف شدہ مال) سے ختم ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح منتقل ہوجاتی ہے کہ اس کا نفع بندوں کو حاصل ہوتاہے،پس یہ لازم ہو جاتا ہے ،(ہدایہ، جلد4، ص: 391-392)‘‘۔ مسجد وقف ہے، وقف میں تبدیلی جائز نہیں ہے، علامہ نظام الدین لکھتے ہیں :’’ وقف کی ہیئت کو بدلنا جائز نہیں ، (فتاویٰ عالمگیری جلد 2ص: 490)‘‘۔ 

حاجی امیر بخش نے مسجد وقف کردی تھی، واقف کو بھی وقف میں تصرُّف کا اختیار نہیں ہے ، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:’’ (وہ کسی کی مِلک نہیں بنے گا) یعنی وقف کرنے والے کی ملکیت میں بھی نہیں رہے گا ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار، جلد6، ص:421، بیروت)‘‘۔ چہ جائیکہ کہ حاجی امیر بخش کی اولاد اس میں تصرُّ ف کرے ، ڈاکٹر وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں: وقف مساجد میں علماء کا اتفاق ہے کہ اس میں کسی (بندے) کی ملکیت نہیں رہتی اور مساجد صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں،(فقہ الاسلامی وادلّتہٗ، جلد10، ص:7602)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حاجی امیر بخش کے بعد اب اس جگہ کسی دوسری میت کی تدفین نہ کی جائے، حاجی امیر بخش کی چار بیویاں ، پھر ان کی اولاد، سب ہی یہ خواہش کریں کہ اُن کی تدفین مسجد کے احاطے میں کی جائے تو مسجد قبرستان بن جائے گی، انھیں چاہیے کہ اپنی میتوں کی تدفین عام مسلمانوں کے قبرستان میں کریں ، مسجد کو قبرستان نہ بنائیں ، شریعت کو اپنی خواہشات کا پابند نہیں بناناچاہیے ،بلکہ خود شریعت کے پابند ہوجائیں (واللہ اعلم بالصواب )