آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: سن 2000ء میں میری ساس نے مجھے سونے کا لاکٹ دیا اور کہا کہ اسے دے کر مجھے سات ہزار روپے لادو ، میں نے وہ لاکٹ اپنے دوست (زرگر) کو دیا، اس نے لاکٹ کے بدلے مجھے سات ہزار روپے دیئےاور وہ رقم میں نے ساس کو دی ، چند عرصہ بعد میرے دوست نے کہا کہ رقم دے کر لاکٹ لے لو، ورنہ میری بیوی لے لے گی، تو میں نے سات ہزار کی رقم دوست کو دے کر لاکٹ واپس لے لیا، میری ساس نے وہ رقم ملنے کے بعد کافی سال تک نہیں لوٹائی اور نہ اس لاکٹ کا مطالبہ کیا، مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے میری بیوی سے پوچھا کہ وہ لاکٹ تمہارے پاس ہے؟ اس کے علاوہ کبھی کچھ نہیں پوچھا، اس کے بعد ساس کا انتقال ہوچکا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ لاکٹ کی ملکیت کس کی شمار کی جائے گی ؟مرحومہ ساس کی یا میری ملکیت تصور کی جائے گی ؟
تنقیح: ساس نے سونا بطور امانت اور اعتماد کے دیا تھا بیچنے کے لئے نہیں دیا تھا، یعنی سونا بطور ضمانت و رہن رکھواکر قرض مل جائے۔
جواب: صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی ساس نے سائل کو سونا بطور ضمانت دے کر قرض کے حصول کے لیے وکیل بنایا تھا، اور سائل نے وہ سونا کسی کے پاس رکھوا کر ساس کے لیے سات ہزار روپے قرض لیا،تو یہ سونا رکھوا کر قرض لینے کے معاملے کو فقہی اصطلاح میں ”رہن“ کہا جاتا ہے، سونا رہن رکھوانے سے وہ سونا سائل کی ساس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوا تھا، البتہ جب قرض دینے والے نے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا تو سائل کو چاہیے تھا کہ اپنی ساس سے وہ قرض کی رقم واپس لے کر ،قرض لوٹاکر سونا واپس ساس کو دے دیتے۔
جب سائل نے اپنی جانب سے قرض کی رقم واپس کرکے رہن رکھا ہوا سونا واپس لے لیا ، تو ساس کے ترکے سے سات ہزار لے کر سونا واپس کر دے۔ (الفتاویٰ الھنديۃ، کتاب الرھن، الباب الأول، الفصل الأول، ج:5 ، ص:431، الباب السابع، ج:5، ص:460، ط: دار الفکر -العقود الدريۃ فی تنقيح الفتاویٰ الحامديۃ، کتاب المداينات: ج:2 ،ص:226، ط: دار المعرفۃ)