• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: اسرار راجہ…لوٹن
(گزشتہ سے پیوستہ)
لکھا کہ یہ علاقے مسلمانوں کے زیر تسلط ہیں لہٰذا انہیں سلطنت غزنی کا حصہ رہنے دو اور باقی ہندوستان پر حکومت کرتے رہو پرتھوی راج چوہان نے اسے بزدلی کا طعنہ دیا تو سلطان نے واپسی کی راہ لی۔ دونوں فوجوں کا ترائن کے مقام پر مقابلہ ہوا جو بے نتیجہ رہا۔ اگلے برس یعنی 1192 میں سلطان نے برصغیر پر پھر حملہ گیا اور پرتھوی راج چوہان اور کھانڈے راؤ سمیت پچاس کے قریب ہندو جرنیلوں اور ریاستوں کے بادشاہوں کو کچل کر رکھ دیا۔ اس سے پہلے البیرونی اور بعد میں حضرت مجدد الف ثانی، سیداحمد شہید،حضرت شاہ ولی اللہ، بنگال میں فرائضی تحریک کے بانی حاجی امداد اللہ، محمد محسن دودو میاں اور تیتومیر نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر نہ صرف انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف اعلان جہاد کیا بلکہ اسلامی ریاست کے قیام کا بھی اعلان کر دیا۔حاجی امداد اللہ نے بنگال کو ’’دارالسلام‘‘قرار دیا تو مسلمانوں نے انگریزوں اور ہندو ساہو کاروں کو ٹیکس دینا چھوڑ دیا۔ فرائضی تحریک اور انگریزوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں تو ہندوؤں نے انگریز کا کھل کر ساتھ دیا جیسے پشاور کے درانی سرداروں ہوتی کے یوسفزیوں اور افغان حکومت نے سید احمد شہید کے خلاف سکھوں کا ساتھ دیا تھا۔ فرائضی تحریک کے سارے بانی یکے بعد دیگرے شہید ہوئے مگر تحریک کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہی۔ 1857کی جنگ آزادی میں بہار، بنگال اور اڑیسہ کے مجاہدین نے بھرپور حصہ لیا مگر مرکزی قیادت کی نااہلیوں کی وجہ سے مسلمان یہ جنگ ہار گئے۔ مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا اور انگریزی تسلط قائم ہوگیا۔اسی تحریک کے اثرات نے مسلمانوں میں آزادی اور نظریاتی تحفظ کی بیداری کو ایک بار پھر زندہ کیا تو 1906میں نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کے گھر پر مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی جو آگے چل کر آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مشہور ہوئی۔ 1857کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے استحصال کا سلسلہ شروع کیا تو سر سید احمد خان نے اس غیر انسانی رویے پر احتجاج کرتے ہوئے قومیت کے بجائے دو قومی نظریے کی ضرورت پر زور دیا۔ فرمایا کہ اگرچہ ہندوستان ایک جغرافیائی حقیقت ہے مگر یہاں ایک نہیں بلکہ دو قومیں آباد ہیں۔ ان کی تاریخ و ثقافت، طریق عبادات،رہن سہن اور معاشرتی آداب و اخلاقیات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مسلمانوں پر جبروظلم اس لئے کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک الگ دین کے ماننے والے ہیں اور ہندوستان کے حکمران تھے۔ ایسی صورت میں مسلمان کبھی بھی ہندوؤں کی اجارہ داری اور حکومت کا جبر برداشت نہیں کریں گے۔ سر سید احمد خان نے اپنی تحریروں میں دو قومی نظریئے کا بھر پور دفاع کیا اور محسوس کیا کہ مسلمان جب تک نئے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں بنتے وہ ہندوؤں اور انگریزوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اسی نظریئے کو تقویت دیتے ہوئے آپ نے علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھی جو جلد ہی یونیورسٹی میں تبدیل ہو کر برصغیر پاک وہند میں جدید علوم کی مشعل بردار بن گئی۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مسلمانوں کی سیاسی اور علمی تربیت کا بیڑا اٹھایا تو روشن خیال مسلمانوں کی جماعت ان کی مددگار اور معاون بن گئی۔ نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک سمیت بہت سے نام سامنے آئے اور مسلم قومیت کا نظریہ تقویت پکڑنے لگا۔ سرسید نے اپنی علمی تحریک کاآغاز 1859ء میں مرادآباد سے کیا جہاں آپ نے ایک مدرسہ قائم کیا۔ بعد میں سائیٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ غازی پور میں ایک سکول قائم کیا جس کا سنگ بنیاد راجہ دیونارائن سنگھ اور مولانا محمد فصح نے رکھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندو بھی ان کی علمی تحریک کا حصہ بنیں تاکہ ہندو مسلم یکجہتی برقرار رہے۔ 1864 میں آپ نے علی گڑھ میں سائنٹیفک سوسائٹی کا کام خود سنبھال لیا۔ 1866 ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کا اجرأ کیا۔ ابتدأ میں یہ ہفتہ وار اخبار تھا پھر سہ روزہ ہوگیا۔ بعد میں تہذیب و اخلاق کے نام سے رسالہ جاری کیا اور ایک کمیٹی بنائی جس کا مقصد مسلمانوں کیلئے حکومتی سطح پر نوکریوں کی تلاش تھی۔ آپ نے اس بات ہر زور دیا کہ حکومت کا کاروبار وسیع ہوتا ہے۔ اس کے پاس خواندہ اور ناخواندہ افراد کیلئے بیشمار نوکریاں ہوتی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کے حصے کی ملازمتیں دےکر ان کا معیار زندگی بہتر کرے۔1886ء میں آپ نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرس قائم کی جو آگے چل کر علی گڑھ مسلم کالج اور بعد میں یونیورسٹی کی بنیاد بنی۔ برصغیر میں دو قومی نظریے کا ارتقائی عمل صدیوں پر محیط ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں کہ پاکستان اس ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے جو صدیوں سے مسلمانوں کی فکری سوچ کا محور رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظمؒ نے ایک خطاب کے دوران فرمایا کہ پاکستان کا وجود اسی دن قائم ہوگیا تھا جب پہلے ہندوستانی نے اسلام قبول کیا تھا۔ ولی کاشمیری لکھتے ہیں کہ وہ پہلا شخص کیرالہ کا بادشاہ راجہ چکر اورتی فرماس تھا جس نے شق القمر کا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ایک وفد کے ہمراہ مکہ شریف پہنچ کر دین اسلام قبول کرلیا۔ فرماس کا اسلامی نام حضرت تاج الدین ؓ ہے جس کی تصدیق انڈین آفس لائبریری لندن میں محفوظ متعدد مخطوطوں کے علاوہ ابن مستدرک میں حاکم نے ابو سعید خزریؓ کے حوالے سے کیا ہے۔ مشہور سیاح اور تاریخ دان چارلز ہیوگل نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ کشمیر اور ہند سے معجزہ شق القمر کے بعد کثیر تعداد میں لوگ مکہ پہنچے اور اصحاب رسولؐ کی صف میں شامل ہوگئے۔ یقیناً قائداعظم کا اشارہ بھی اسی طرف ہے جو اسلام اور قرآنی تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ، دو قومی نظریئے اور تحریک آزادی کے حوالے سے تاریخ میں جتنے بھی نام ہیں علامہ اقبالؒ کی شخصیت اس فہرست میں سب سے معتبر ہے۔ اقبالؒ ایک شاعر، قانون دان، فلسفی، ادیب اور سیاستدان ہی نہ تھے بلکہ ایک انقلابی تحریک کے داعی اور اتحاد بین المسلمین کے سب سے بڑے اور متحرک مبلغ تھے۔
یورپ سے سے مزید