اسلام آباد (عمر چیمہ) گزشتہ سال جنوری میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد تحقیقات کاروں نے ایک کثیر جہتی تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس حملے میں 100؍ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ تحقیقات کاروں نے ماضی کے کیسز کی چھان بین کی اور کئی لوگوں کا سراغ لگایا۔ انہوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا اس میں ماضی کے خود کش حملوں کا جائزہ لینا اور بمباروں کے رشتہ داروں کا انٹرویو کرنا شامل تھا تاکہ ممکنہ طور پر کسی بھی اہم بات سے پردہ اٹھایا جا سکے۔ اس تحقیقات میں انہیں افغان شہری امتیاز نامی شخص کا پتہ چلا جسے تاؤرا شیپّا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اس کا بھائی بھی خودکش بمبار تھا اور چچا طالبان کمانڈر تھے۔ امتیاز نے انکشاف کیا کہ وہ بمبار کو جانتا تھا اور افغانستان میں اُس سے ملاقات بھی کر چکا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ پاکستان میں داخل ہوا تو وہ بمبار سے رابطے میں تھا۔ دریں اثنا، تحقیقات کاروں کی ٹیم نے ممکنہ طور پر اس واقعے میں جماعت الاحرار کے ملوث ہونے پر تحقیقات شروع کی۔ پولیس کو شک ہوا کہ اس واقعے میں پولیس کا اپنا ہی کوئی آدمی ملوث ہو سکتا ہے، اس طرح جماعت الاحرار کی قیادت کے ساتھ ملتے جلتے نسلی تعلقات رکھنے والے پولیس اہلکاروں کی فہرست مرتب کی گئی۔ امتیاز نے ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کیا جس کے بارے میں اس کے خیال میں وہ پشاور کے گرد بمباروں کی نقل و حمل میں ملوث تھا، اس کی شناخت صرف ’’عرفان شنواری‘‘ کے نام سے ہوئی، کیونکہ مشتبہ شخص ہمیشہ ماسک اور ہیلمٹ پہنتا تھا۔ مزید تحقیقات سے جلد ہی شک یقین میں بدل گیا۔ عرفان دراصل پولیس کانسٹیبل محمد ولی تھا اور دہشت گردی کے واقعات میں بھی ملوث تھا۔ گرفتار پولیس کانسٹیبل نے پولیس لائنز میں ہوئے حملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کی فراہم کردہ تفصیلات سے پولیس نے اپنی تحقیقات کال ڈیٹا ریکارڈز (سی ڈی آر) اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ 2021 کے عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے شواہد سے تصدیق کی ہے۔ پیر کی شام کے پی پولیس چیف نے ایک پریس کانفرنس کی جہاں انہوں نے محمد ولی کی گرفتاری اور اقبالیہ بیان کا ذکر کیا۔ ولی کا کہنا تھا کہ تھا کہ اسے اس واقعے کیلئے دو لاکھ روپے دیے گئے تھے۔ اس نے مزید انکشاف کیا کہ اسے عسکریت پسند تنظیم سے تقریباً پچاس ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے۔