کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کےپروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں میزبان علینہ فاروق نے پینل کے سامنے سوال رکھا کہ کیا بانی پی ٹی آئی کی براہ راست مذاکرات کی خواہش کا اظہار درست حکمت عملی ہے؟ جواب میں تجزیہ کار مظہرعباس ،ارشادبھٹی ، بے نظیر شاہ اور آصف بشیر چوہدری نے کہا کہ عمران خان کا یہ کہنا کہ اگر بات کرنی ہے تو مجھ سے کی جائےیہ محمود خان اچکزئی سمیت اپنی جماعت کے لوگوں پرعدم اعتماد ہے،اگر چوبیس نومبر کو بڑا شو ہوتا ہے تو مذاکرات ہوں گے اگر ایسا نہیں ہوتا تو نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں لفظ ڈیل کو ناپسندیدگی کی نظر میں دیکھا جاتا ہے جبکہ اگر سیاستدان کے ہر دروازے کو بند کر دیا جائے تو ڈیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ دونوں طرف بہت زیادہ کنفیوژن نظر آرہی ہے ایک طرف کمیٹی بنائی جاتی ہے پھر کہا جاتا ہے مذاکرات براہ راست مجھ سے ہوں گے۔ جو کچھ بھی ہوگا چوبیس نومبر کے بعد ہوگا، یقیناً چوبیس نومبر کو تحریک انصاف کا قوت کا مظاہرہ کرے گی اور اگر مذاکرات کا کہیں بھی کوئی عندیہ ہوتا تو عطا تارڑ کی پریس کانفرنس نہیں ہوتی۔تقریباً دو سال گزرنے کو ہیں نو مئی کی چیزیں دکھائی جارہی ہیں اب تک ٹرائل کیوں نہیں کیا گیا۔ اگر چوبیس نومبر کو بڑا شو ہوتا ہے تو مذاکرات ہوں گے اگر ایسا نہیں ہوتا تو نہیں ہوں گے۔تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ ڈیل اگر ملک کے لیے ہو تو بات سمجھ آتی ہے ۔ڈیل جب یہ ہو کہ میری نااہلی ختم کر کے مجھے جیتوا دیں حکومت دے دیں مخالفین کو بند کردیں انہیں ڈیلوں نے ملک کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ ہم تحریک انصاف سے ہمیشہ یہی کہتے آئے ہیں کہ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھیں اگر وہ بات چیت کا آپشن کھول رہے ہیں تو سب کو انہیں سراہنے کی ضرورت ہے۔ مذاکراتی کمیٹی میں شاہ فرمان کو شامل کیا گیا ہے جبکہ علی امین کو نکال دیا گیا ہے اور بیرسٹر گوہر اس میں موجود نہیں ہیں۔ فوج نے صاف کہا ہے کہ نو مئی پر معافی مانگی جائے جبکہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ کوئی معافی نہیں مانگی جائے گی اور خبر یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کئی بار بیک ڈور مذاکرات کی کوشش کرچکی ہے جس میں اسے کامیابی نہیں ملی ہے۔