سب سے پہلے وہ بات سن لیجئے جو بات میں بچپن سے بڑھاپے تک سنتا آرہا ہوں۔ عین ممکن ہے کہ وہ بات آپ نے پہلے سے سن رکھی ہو۔ اچھی بات ہے۔ بار بار سن لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ آپ بڑی سطح پر اچھا اور معیاری کام تب کر سکتے ہیں جب وہی کام آپ چھوٹی یا محدود سطح پر پہلے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ یعنی چھوٹے لیول Levelیعنی سطح پر آپ کو وہ کام کرنے کا تجربہ ہو۔ اس کہاوت میں آپ اچھے اور برے کام شامل کرسکتے ہیں۔ ہم سب زندگی بھرکچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کچھ نہ کرتے ہوں سیانوں کی یہ بات سن کر کسی نے جل بھن کر کہا تھا۔ ’’میں بھکاری ہوں۔ کچھ نہیں کرتا۔‘‘
کسی نے پوچھا۔ ’’بھکاری ہو تو پھر روزی روٹی کے لئے بھیک تو مانگتے ہوگے؟‘‘
جلے بھنے شخص نے کہا کہ ’’وہ تو میں کرتا ہوں۔‘‘
’’یہی بات میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا تھا۔‘‘ کھوجی نے کہا۔ ’’بھیک مانگنا تمہارا کام ہے۔ وہ کام تم کب سے کرتے آئے ہو؟‘‘
کرخت لہجے میں بھکاری نے کہا۔ ’’یہ کام میں برسوں سے کرتا چلا آرہا ہوں‘‘۔
ایسے منجھے ہوئےبھکاری کو آپ بڑے لیول یعنی سطح پر بھیک مانگنے کے دھندے پر لگا سکتے ہیں۔ وہ دیالو ممالک سے آپ کے معاشی اور اقتصادی طور پر نڈھال ملک کے لئے ڈھیروں ڈالر، پائونڈ اور یورو لاسکتا ہے۔ وہ اتنے پیسے لاسکتا ہے کہ آپ کی اسٹیٹ بینک کے پاس رکھنے کی جگہ کم پڑ جائے گی۔ اسٹاف کو کمروں سے نکال کر برآمدوں اور کوریڈروں میں بٹھانے کے بعد اسٹیٹ بینک کو پائونڈز، ڈالرز اور یورو کے انبار رکھنے کیلئے جگہ مل سکے گی۔ اس کو کہتے ہیں چھوٹے پیمانے پر ایک کام میں مہارت حاصل کرنے کے بعد بہت بڑی سطح پر اپنے ہنر کے کمال کو دیدہ ور کرکے دکھانا۔ لوگوں کو انگشت بدنداں کرنا۔
ایک حضرت جب نوخیز تھے، تب کراچی میں ان کاایک سینماتھا۔ جواں ہوتے ہوتے وہ دس سینمائوں کے مالک بن چکے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بیچنے اور خریدنے کے کاروبار میں کود پڑے۔ اپنے تجربہ کے ہرگُر کو آزماتے ہوئے وہ بہت آگے نکل گئے اور اسمبلی میں جابیٹھے۔ آج وہ عہدےمیں آسمان کو چھو سکتے ہیں۔
میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کاروبار چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ کاروبار آپ کو ناتجربہ کار سے منجھا ہوا کاروباری بنا دیتا ہے۔ سیکھنے کے لئے عمر کی حد مقرر نہیں ہوتی۔
ایک صاحب بچپن سے ہیراپھیری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ چھوٹے پیمانے پر ہیراپھیرا کی تمام چالاکیاں،دائو، کرتب اور شعبدہ بازی کا ہر ہنر اس نے اپنا لیا تھا۔ پھر جب اسے بہت بڑی سطح پر اپنے ہنر کی حرفتیں دکھانے کا موقع ملا تو اس حضرت نے سب کا بھٹہ بٹھا دیا۔ خطہ ارض پر وہ کونسا ملک ہے جہاں اس کی جائیداد نہ ہو۔ ہم ان چالاکیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ہیراپھیری کو حضرت کا ذاتی فعل سمجھ کر درگزر کردیتے ہیں۔ اپنی ہنرمندی سے وہ جب چاہے اسمبلی کا ممبر بن سکتا ہے۔ یہاں ہر ایک آئینی نکتہ وضاحت طلب ہے ۔ اس نوعیت کا وسیع تجربہ حاصل کرنے والوں کے لئے اسمبلی ممبر بننے پر پابندی نہیں ہے۔ اس لئے فقیروں کی طرف سے مجوزہ آئینی ترامیم کی فہرست میں تگڑم بازوں کے اسمبلی ممبر بننے پر کسی قسم کی پابندی لگانے کی استدعا نہیں ہے۔
بیشمار دبنگ زمیندار اسمبلیوں کے ممبر بنے ہوئے ہیں۔ وہ ملک کو اور ملک میں بسنے والوں کو اپنی زرعی زمین اور زمین پر کاشت کرنے والے ہاری، کسان اور مزارع سمجھتے ہیں ۔ ان کے لئے اسکول کالج اور یونیورسٹیاں بنوانے کو وہ ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کو خستہ حال رکھنے میں زمیندار ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ آپ ملک اپنی زمینداری کی طرح نہیں چلاسکتے، مگر آپ بضد ہیں کہ آپ چلا سکتے ہیں۔ آپ ملک اپنے کارخانوں اور فیکٹریوں کی طرح نہیں چلاسکتے۔ مگر آپ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھپ ہو رہا ہے۔ اسی طرح آپ ملک فیملی افیئر یعنی خاندانی طرز عمل پر نہیں چلاسکتے۔
یہ میرا موقف نہیں ہے۔ یہ سب سیانوں کا کہنا ہے ۔ میں اور میرے ساتھی تاریخ میں ایک مثال کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، جب ساس بہو، سالے سسر، بھانجے بھتیجے، چاچے ماموئوں نے ملک ملکر کامیابی سے چلایا ہو۔ مگر آپ بضد ہیں کنبے کے کنبے، خاندان کے خاندان اسمبلیوں میں براجمان ہیں اور بھونڈے طریقے سے ملک چلانے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ فقیر 75برسوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ آئینی ترمیم کے ذریعے خاندانی سیاست پر بندش ڈالی جائے۔ آپ باورچی خانہ میں بیٹھ کر ملک نہیں چلاسکتے۔ بھائی، بہن،نند، بھاوج، ساس بہو مل کر ملک نہیں چلاسکتے۔ پون صدی ان تجربوں میں آ پ نےضائع کر دی ہے اور کتنے برس آپ مختلف نسخوں سے ملک چلاتے رہیں گے؟