مولانا مفتی احمد الرحمٰن
’’سنّت‘‘ کے معنیٰ طریقہ وعادت کے ہیں ، ہم جب سنّت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ہوتا ہے ’’آنحضرت ﷺ کا طریقۂ زندگی‘‘۔ امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں:’’آنحضرت ﷺ کی سنت سے مراد ہے آپ ﷺ کا وہ طریقہ جس کو آپ ﷺ قصداً اختیار فرمایا کرتے تھے۔‘‘(مفردات، ص:۲۴۵)
سنّت کا یہ مفہوم بڑا وسیع اور جامع ہے اور پورا دین اور دین کے تمام شعبے اس کے اندر آجاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے کن عقائد کی تعلیم فرمائی؟ عبادات کیسے ادا فرمائی تھیں؟ معاملات ومعاشرت میں آپ ﷺ کا طریقہ کیا تھا؟سیاست وجہانبانی، صلح وجنگ اور فصلِ خصومات میں آپ ﷺ کا کیا انداز تھا؟ آپ ﷺ کی رفتار وگفتار، نشست وبرخاست کیسی ہوتی تھی؟ کیسی شکل وشباہت اور لباس وپوشاک کو آپ ﷺ پسند یا ناپسند فرماتے تھے؟ غرض عقائد ہوں یا عبادات، اخلاق ہوں یا معاملات، معاشرت ہو یا سیاست، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں آنحضرت ﷺ کے نقشِ پا ثبت نہ ہوں اور آپ ﷺ نے اس میں اُمّت کی رہنمائی نہ فرمائی ہو۔
ہرمسلمان کو شاہراہِ حیات پر سفر کرتے ہوئے قدم قدم پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاملے میں آنحضرت ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے دلائل بے شمار ہیں، مگر یہاں صرف تین وجوہ کے ذکر پر اکتفاکیا گیا ہے:
اول: یہ کہ ہم آنحضرت ﷺ کے اُمتی ہیں۔ کلمہ طیبہ ’’لا إلٰہ إلاّ ﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ پڑھ کر ہم آپ ﷺ کی رسالت ونبوت پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے یہ عہد باندھا کہ ہم آپ ﷺ کے ہر حکم اور ہر ارشاد کی تعمیل کریں گے۔
اس معاہدۂ ایمانی کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری تمام زندگی کا کوئی قدم منشائے نبوی ﷺ کے خلاف نہ اُٹھے اور ہماری تمام خواہشات سنتِ نبوی ﷺ کے تابع ہوں، کیونکہ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ آنحضرت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ترجمہ:’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ اس کی خواہش اُس دین کے تابع ہو جائے، جسے میں لے کر آیاہوں۔‘‘(مشکوٰۃ، ص:۳۰)
پس آنحضرت ﷺ کے منصبِ رسالت ونبوت اور ہمارے اُمتی ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے طریقۂ زندگی کو پورے طور پر اپنائیں اور کسی دوسرے طریقۂ زندگی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے:’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا، صرف اسی لیے بھیجا کہ بحکمِ خداوندی اس کی فرماںبرداری کی جائے۔‘‘(سورۃالنساء:۶۴)
آپ ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کے طریقۂ زندگی سے انحراف، ایک لحاظ سے گویا آپ ﷺ کی رسالت ونبوت کا انکار کردینے کے ہم معنی ہے۔ صحیح بخاری میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: ’’میری اُمت کے سارے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، سوائے اس کے جس نے انکار کردیا، عرض کیا گیا: انکار کس نے کیا؟ فرمایا: جس نے میرا حکم مانا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے حکم عدولی کی، اس نے انکار کردیا۔‘‘
دوسری وجہ: یہ کہ آنحضرت ﷺ سے ہمارا تعلق محض قانون اور ضابطے کا نہیں، کیونکہ آپ ﷺ ہمارے محبوب بھی ہیں اور محبوب بھی ایسے کہ حسینانِ عالم میں کوئی بھی محبوبیت میں آپ ﷺ کی ہمسری نہیں کرسکتا، چنانچہ ارشاد ہے:’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب ہوجاؤں۔‘‘(متفق علیہ، مشکوٰۃ، ص:۱۲)اور محبت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ محب کو اپنے محبوب کا ہم رنگ بنا دیتی ہے۔
کسی عاشق دل دادہ سے پوچھئے کہ اس کے نزدیک محبوب کی اداؤں کی کیا قدر وقیمت ہے اور وہ چال ڈھال اور رفتار وگفتار میں اپنے محبوب سے ہم رنگی ومشابہت کی کتنی کوشش کرتا ہے؟ آنحضرت ﷺ جب جانِ جہاں اور محبوبِ محبوبانِ عالم ہیں تو آپ ﷺ کے ایک سچے عاشق کو آپ ﷺ کی اداؤں پر کس قدر مرمٹنا چاہیے؟
ایک عارف فرماتے ہیں: پس جو لوگ آپ ﷺ کی سنت سے انحراف کرکے یہود ونصاریٰ کی سنت کو اپناتے ہیں، ان کا دعوائے محبت بے روح ہے۔ ترجمہ:’’تم رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی بھی کرتے ہو اور آپ ﷺ سے محبت کے بھی دعوےدار ہو۔ بخدا! یہ بات تو زمانے کے عجائبات میں سے ہے۔ اگر تم آپ ﷺ کی محبت میں سچے ہوتے تو آپ ﷺ کی بات مانتے، کیونکہ عاشق تو اپنے محبوب کا فرماں بردار ہوتا ہے۔‘‘
تیسری وجہ: یہ کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں اور قیامت تک کے لیے دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی اورانسانیت کی فلاح وسعادت آپ ﷺ کے قدموں سے وابستہ کردی گئی ہے۔ اگر اس دنیا میں سعادت وکامیابی کے ایک سے زیادہ راستے ہوتے تو ہمیں اختیار ہوتا کہ جس راستے کو چاہیں اختیار کرلیں، لیکن یہاں ایسا نہیں،بلکہ ہدایت وسعادت، صلاح وفلاح اور کامیابی وکامرانی کا بس ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کا راستہ ہے، اس راستے کے علاوہ باقی تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔
حضرت عمر ؓ کا مشہور قصہ ہے کہ وہ ایک بار یہودیوں کے بیت المدراس تشریف لے گئے اور وہاں سے تورات کے چند اوراق اٹھا لائے اور انہیں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پڑھنا شروع کیا۔ آنحضرت ﷺ کے چہرۂ انور کا رنگ بدلنے لگا۔
حضرت ابوبکر ؓکے توجہ دلانے پر انہوں نے آنحضرت ﷺ کے چہرۂ انور کا رنگ دیکھا تو اوراق لپیٹ کر رکھ دیئے، اور یہ کہنا شروع کیا:ترجمہ:’’میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اللہ کے غضب سے اور اس کے رسول ( ﷺ ) کے غضب سے، میں اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر، اسلام کو اپنا دین مان کر اور محمد ﷺ کو اپنا نبی مان کر راضی ہوا۔‘‘آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے، اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر اُن کی پیروی کرنے لگو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤگے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ خود میری پیروی کرتے۔‘‘(مشکوٰۃ، ص:۲۲۲)
حضرت جابر ؓکی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ترجمہ: ’’کیا تم اسی طرح بھٹکا کروگے جس طرح یہود ونصاریٰ بھٹک رہے ہیں؟! بخدا ! میں تمہارے پاس روشن اور صاف ستھری شریعت لے کر آیا ہوں اور اگرحضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو اُنہیں بھی میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔‘‘(مشکوٰۃ، ص:۳۰)
تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنے اپنے دور میں ہدایت وسعادت کے سرچشمے تھے، لیکن آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کے بعد یہ تمام سرچشمے بند کر دیئے گئے اور ان پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا گیا اور آنحضرت ﷺ کی سنت و طریقہ کے بجائے ان حضرات کی شریعت وطریقے پر عمل کرنا بھی ضلالت وگمراہی قرار پائی۔ اس واقعے سے ہمیں تین عظیم الشان سبق ملتے ہیں:
ایک یہ کہ جب انبیائے گزشتہ کی پیروی بھی ہمارے لیے موجبِ فلاح وسعادت نہیں، بلکہ گمراہی وضلالت ہے تو ان کی بھٹکی ہوئی قوموں کے نقشِ قدم پر چلنا فلاح وسعادت کا موجب کیونکر ہوسکتا ہے؟ اسی سے اندازہ کیجئے کہ آج کے مسلمان جو سنتِ نبوی ( ﷺ ) پر عمل پیرا ہونے کے بجائے یہود ونصاریٰ کی نقالی میں فخر محسوس کرتے ہیں، وہ فلاح وسعادت سے کس قدر محروم ہیں اور ان کی ضلالت وگمراہی کس قدر لائقِ صد ماتم ہے۔آج اُمتِ مسلمہ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، اس کا راز یہی ہے کہ اس نے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا۔ وہ نبیِ رحمت ﷺ کے دامنِ رحمت سے کٹ کر وابستۂ اغیار ہوگئی ہے۔
وہ آنحضرت ﷺ کے مقدس طریقۂ زندگی کو چھوڑ کر گمراہ ومغضوب قوموں کے اختراع کردہ نظامہائے زندگی کی تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے۔ اس نے آفتابِ مدینہ سے منہ موڑ کر مغرب کی ظلمتوں سے روشنی کی دریوزہ گری شروع کردی ہے۔ انہوں نے اپنے آئینِ سیاست اور اپنے آدابِ معاشرت، اپنی شکل وصورت اور اپنی عقل وخرد کو یہود ونصاریٰ کے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔
آج کسی مسلمان کی شکل وصورت، اس کے رہن وسہن، اس کی نشست وبرخاست، اس کے اندازِ گفتگو اور اس کے مظاہرِ زندگی کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا اُمتی ہے یا کسی یہودی و عیسائی اور کسی خدا بیزار قوم کا فرد ہے۔ اپنے نبیِ رحمت ﷺ سے ایسی بے وفائی واحسان فراموشی کا نتیجہ ہے کہ انفرادی طور پر ہر شخص کا ذہنی سکون غارت ہوچکا ہے اور اجتماعی طور پر ذلت وخواری ان کا مقدر بن چکی ہے۔
دوسرا سبق: ہمیں اس سے یہ ملتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کے بعد حضرات انبیائےکرام علیہم السلام کی شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں، تو آپ ﷺ کے کسی نقال اور کسی جھوٹے مدعی نبوت کی پیروی کی گنجائش کب رہ جاتی ہے؟ اور اگر دورۂ محمدی ﷺ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی بھی گمراہی وضلالت ہے تو کسی مسیلمہ کذاب اور اسودِ قادیان کی پیروی کے جہالت وحماقت ہونے میں کیا شبہ رہ سکتا ہے؟
تیسرا سبق: ہمیں یہ ملتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے بعد انبیائے گزشتہ کی سنتوں اور طریقوں کو اختیار کرنے کی بھی گنجائش نہیں تو بعد کے کسی انسان کی خود تراشیدہ خواہشات وبدعات کو اپنانے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر خود تراشیدہ رسوم وبدعات کی سخت مذمت کی گئی ہے اوراسے ضلالت وگمراہی فرمایا گیا ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ ؓ فرماتے ہیں کہ: ایک دن نماز سے فارغ ہو کر آنحضرت ﷺ نے ہمیں ایسا بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہوگئے اور دل تھر تھرا گئے۔
ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! یہ تو ایسا وعظ فرمایا، گویا آپ ہمیں رخصت فرمارہے ہیں، اس لیے ہمیں کوئی خصوصی وصیت فرمایئے، ارشاد ہوا: ’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی اور امیر کی سمع وطاعت بجالانے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ حبشی غلام ہو، کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدینؓ کی سنت کو لازم پکڑنا اور دانتوں کی کچلیوں سے مضبوط تھام لینا اور جو نئے نئے امور دین میں اختراع کیے جائیں ان سے بچتے رہنا، کیونکہ ہر ایسی ایجاد تو بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘(مشکوٰۃ، ص:۳۰)
اکابرِ امت فرماتے ہیں کہ: دین میں کسی نئی بدعت کی ایجاد در پردہ رسالتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیمات) کی تنقیص ہے، کیونکہ بدعت کے ایجاد کرنے والا گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ایجاد کردہ بدعت کے بغیر دین نامکمل ہے اور یہ کہ نعوذ باﷲ! خدا ورسول ﷺ کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی، جہاں اس بدعت پرست کی پہنچی ہے، یہی وجہ ہے کہ بدعت کے ایجاد کرنے کو دینِ اسلام کے منہدم کردینے سے تعبیر فرمایا، حدیث میں ہے: ترجمہ: ’’جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم وتوقیر کی، اس نے اسلام کے منہدم کرنے پر مدد کی۔‘‘(مشکوٰۃ، ص:۳۱) ( … جاری ہے … )