روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے اسرائیل کے وزیراعظم نتین یاہو کے خلاف قتل عام اور نسل کشی کے جرائم کا مرتکب ہونے پر نہ صرف مجرم قرار دیا ہے بلکہ اس کی گرفتاری کے لئے وارنٹ بھی جاری کر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی وزیر دفاع بوگیلنٹ کے وارنٹ بھی جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس کے محمد ضیعف کے خلاف بھی وارنٹ جاری کئے لیکن اسرائیلی حکام کاکہنا ہے کہ محمد ضیعف جولائی میں ہی غزہ میں ایک حملے کے دوران مارا جا چکا ہے۔ اسرائیل اور حماس دونوں نے اپنی اپنی جگہ پر انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی صحت سے انکار کیا بلکہ فیصلہ آنے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے بھی اس فیصلے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ نتین یاہو نے تو اس فیصلے کو یہودیوں کے خلاف ایک سازش قرار دے دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی 124ممبر ریاستوں میں جن میں اسرائیل اور امریکہ بھی شامل ہیں آیااس فیصلے پر عمل درآمد بھی کروائیں گی یا نہیں ۔جہاں امریکہ نے اس فیصلے کو مسترد کر دیاہے وہاں یورپی ممالک نے کہا ہے کہ وہ آئی سی سی کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ آئی سی سی ایک عالمی عدالت ہے جو نسل کشی ، انسانیت کے خلاف ملکوں کے جرائم اور جنگی جرائم پر مقدمات چلانے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ عدالت جو کہ نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ میں 2002میں انہی جرائم پر فیصلے دینے کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہ عدالت اس وقت روانڈا میں نسل کشی اور یوگوسلاویہ کی جنگوں میں ہونے والے قتل عام کی روک تھام کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہ عدالت اسی وقت حرکت میں آتی ہے جب متعلقہ ریاستیں ان جرائم پر کسی فیصلے سے عاری ہوتی ہیں۔ یہ عدالت کانگو کے ملیشیا لیڈر تھامس لیانگا کے خلاف 2012میں فیصلہ دے چکی ہے۔ سوڈانی صدر عمر البشر کے خلاف نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالی پر فیصلے دے چکی ہے۔ 2023میں اسی عدالت نے روس کے صدر پیوٹن کے خلاف یوکرین کی جنگ کے ایشو پر وارنٹ گرفتاری جاری کئے جو کہ دراصل یوکرین سے بچوں کی غیرقانونی ڈپورٹیشن کے خلاف تھا۔ لیکن یہ ایک ایسی عالمی عدالت ہے جس کے پاس اپنے فیصلے نافذ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔سب کچھ محض کاغذی کاروائی کی حد تک محدود ہے۔ ایسی عدالت کیوں بنائی گئی، یہ بھی مغربی ممالک اور امریکہ کی عالمی غنڈہ گردی کو تقویت دینے کے لئے ہے کیونکہ آئی سی سی کے پاس ایسے مجرموں کو گرفتار کرنے اور سزا کے لئے کہیں جیل جیسی جگہیں موجود نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی انٹرنیشنل کورٹ ہے جسے انہی ملکوں کی پولیس پر انحصار کرنا پڑتا ہے جہاں وہ مجرم موجود ہوتے ہیں اگر وہ گرفتار کریں اور پھر انہیں دی ہیگ نیدرلینڈ بھیجا جائے۔ ایسےمقدمات کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب یا تو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی جانب سے کیس دیا جائے یا پھر متاثرہ ریاست کی جانب سے۔ یہ عدالت خود بھی ایکشن لے سکتی ہے جسے سووموٹو کہا جاتا ہے لیکن اسے ایک عالمی عدالت کے ججوں کا پینل طے کرتا ہے۔ ان عدالتوں میں پیش ہونے والے جج اور پراسیکیوٹر دونوں کا انتخاب متعلقہ اور متاثرہ ریاست کی جانب سےکیا جاتا ہے۔ اب اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایسی عدالت کےفیصلے کا انحصار بڑی طاقتوں کے مفادات پر منحصر ہے۔ اگر انہیں ایسے فیصلے جو ان کے سیاسی مفاد میں ہوں تو وہ عالمی عدالت کو عملدرآمد کے لئے اپنی سیکورٹی ایجنسی اور اداروں کی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ ان 124 ممالک میں شامل نہیں ہے جو آئی سی سی کے ممبر ہوں لیکن باہر بیٹھ کر امریکہ اس عدالت کو رضاکارانہ طور پر اپنے مفادات کے پیش نظر اپنی خدمات کی آفر کر چکا ہے۔ اب اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی پر اسرائیل کا وزیراعظم بھی اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اسرائیل بھی اس عالمی عدالت کا ممبر نہیں ہے۔ دو بڑے عالمی جارحیت پسند اور جارحیت میں ملوث ممالک اسرائیل اور امریکہ نے خود کو ایسی عدالتوں سے باہر رکھا ہوا ہے اوراپنے پاس دنیا میں غنڈہ گردی کا لائسنس تھام ہوا ہے۔ اب ایسے میں کیا کیا جائے کہ یہ عالمی انصاف کا اطلاق ہوسکے اسکا ایک ہی طریقہ ہے کہ آئی سی سی کے ممبر ممالک اعلان کریں کہ اگر غزہ میں نسل کشی کا مجرم اسرائیل کا وزیراعظم نتین یاہو ان ممبران ممالک میں سے جس کسی بھی ملک میں گیا تو اسے گرفتار کرکے آئی سی سی کے حوالے کیا جائے گا یہی ایک طریقہ کار ہے جس سے عالمی طور پر انسانوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جاسکتاہے وگر نہ یہ عدالتیں تو عالمی سطح پر بنانا Banana Courts عدالتیں بن کے رہ جائیں گی اور تاحال ان کا سٹیٹس ایسا ہی ہے اس کےلئے تمام ممالک کے عوام کو بھی اپنی حکومتوں پر دباؤ بڑھانا چاہئے کہ وہ نتین یاہو کو گرفتار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔