• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم

کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی کے لیے لازم ہے کہ آپ اپنی ذات پر پورا بھروسہ رکھتے ہوں یعنی آپ کو اس بات کا پورا یقین ہو کہ آپ باصلاحیت ہیں اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی سکت بھی رکھتے ہیں۔

جونوجوان اپنے وجود پر پورا یقین رکھتا ہو وہ کسی بھی شعبے میں قابل رشک حد تک کامیابی سے ہم کنار ہونے کی طرف تیزی سے سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ 

زندگی میں اگر کچھ بھی پانا ہے تو اس کیلئے کوشش کرنا ضروری ہے۔ میں ہار جاؤں کا خوف، بہادری کا فقدان اس کی صلاحیتوں کو چھین لیتاہے یا کمزور کردیتا ہے۔ شخصیت دب کر رہ جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ خوف زدہ ہی رہتا ہے۔ کچھ کھو دینے کا خوف بہت کچھ پالینے کی خوشی پر غالب آجاتا ہے۔ وہ ساری زندگی، اگر کچھ ہوگیا کا شکار رہتے ہیں۔ اور جو اس ڈر اور خوف کو شکست دینا سیکھ لیتا ہے وہی سکندر ہوتا ہے۔

اس کی مثال ایک خوفزدہ نوجوان کے واقعہ سے لی جاسکتی ہے ایک دن اُس کا گزر ایک کمار کی دکان کے پاس سے ہوا اُس نے کمہار سے پوچھا کہ ،’’اگر کسی دن تمھارے برتن نا بکے تو کیا کرو گے ۔‘‘ کمار نے کہا،’’ تم یہ بات کسان سے پوچھو ،چناچہ وہ کسان کے پاس پہنچا اور اس ے جا کر پوچھا کہ اگر چھ مہینے کی محنت کے بعد تمھاری فصل اچھی نہاُگے تو تم کیا کرو گے ۔‘‘ 

کسان نے کہا ،’’کیا تم نے کبھی کشتی پر سفر کیا ، اگر تم یہ بات سمجھنا چاہتے ہو تو جاؤ دریا کے کنارے فیقہ ملاح ہے ۔ وہ تمھیں یہ بات سمجھا دے گا۔‘‘ ۔ نوجوان ملاح کے پاس جا پہنچااور اس سے کہا کہ، اگر کبھی تم دریا کے بیچ جا کر پھنس جاؤ، تمھاری کشتی ڈوب جائے تو کیا ہوگا ‘‘۔ ملاح بہت دانا انسا ن تھا ، اس نے کہا ،’’بابو میں زیادہ پڑھا لکھاتو نہیں ہوں، اس لیے ایسی باتیں نہیں سمجھتا ،البتہ ایک حل ہے کہ تمھیں تمھارے سوال کا جواب مل جائے ، آو ٔ کشتی کی سیر کرتے ہیں۔ 

نوجوان کشتی میں بیٹھ گیا اور ملاح نے بسم اللہ پڑھ کر کشتی دریا میں ڈال دی ۔ کشتی جب عین درمیان میں پہنچی تو ملاح نے کہا ،’’نوجوان! اب بتاؤ تم کیا کہہ رہے تھے کہ کشتی ڈوب گئی تو کیا ہو گا۔ہم اس وقت دریا کےعین درمیان ہیں اور کشتی آگے نہیں جاسکتی۔‘‘ نوجوان ایک دم سے پریشان ہوگیا اور کہا،’’ ایسا کیوں ‘‘؟ ملاح نے کہا شاید موت کا وقت قریب آگیا ہے ۔ یہ سن کر نوجوان گھبرا گیا اور ملاح کی طرف پریشانی سے دیکھنے لگا۔ 

ملاح نے کہا، ’’اچھا چلو یہ بتاؤ تم دریا میں مر گئے تو کیا ہو گا ۔‘‘’’نہیں نہیں آپ کشتی چلائیں ۔ مجھے بتائیں کیسے اس کو چلانا میں آپ کی مدد کرتا ہوں۔ نوجوان نے کہا۔ ملاح نے کہا’’شاید تم یہ نہیں کر سکتے اس لیے ہمیں اپنی موت کا انتطار کرنا چاہیے ۔‘‘ نہیں نہیں میں جینا چاہتا ہوں، میں ایسے نہیں مرنا چاہتا پلیز مجھے بچا لیں ، پلیز کچھ کریں ۔‘‘’’ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا ہم عین درمیان میں ہیں کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ 

ملاح نے کہا۔ نوجوان ڈر کررونے لگا ۔ملاح نے مسکرا کر کہا ۔’’ سنو نوجوان !کیا تم میری مدد کرو گے، کوشش کریں یہاں سے نکلنے کی۔ نوجوان نے حامی بھری تو ملاح نے کہا چلو واپس چلتے ہیں کشتی واپس کنارے آگئی تو نوجوان کو کچھ حوصلہ ہوا۔’’ سنو بیٹا ! تمھیں جس طرح کشتی میں بنا کسی خرابی کےیہ یقین ہوگیا تھا کہ ہم اب مر جائیں گے اگر تم اتنا یقین خدا پر رکھو تو تم زندگی میں ناکام نہیں ہو گے۔ 

انسان اس زندگی میں مسافر ضرور ہے، مگر اس کی حیات کے نظام کے لیے اللہ نے اسباب پیدا کیے ہیں ۔ اس نے اپنے بندوں کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑا۔ تمھارا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ تم کشتی نا چلا سکو۔ تمھارا مسئلہ یقین اور بے یقینی کے درمیان تھا۔ ملاح جو ماہر تھا وہ پریشان نہیں تھا تو تم کیوں تھے۔ دریا کی سیر کے لطف کو چھوڑ کر تم اندھیرے کو دیکھ رہے تھے۔

یہی تمھاری ناکامی کی وجہ ہے ۔ زندگی یقین اور بے یقینی کی کیفیات کا ایک مرکز ہے ۔ جہاں جیتنے والے اور ہارنے والے دونوں ہی پائے جاتے ہیں ۔ جیتنے والوں کو پڑھو سوچو اور سمجھو تم بھی جیتو گے اگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہارنے پر لگاؤ گے تو خوف کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔ زندگی کا لطف اٹھاو ٔ۔ ‘‘

آج ہماری زندگی میں ہمارے نوجوان بھی اکثر منفی سوالات کی بارش کر دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ ان کا علم حاصل کرنا نہیں بلکہ ان کا خوف ہے جو ہر لمحہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ناکامی کی بہت سی وجوہات میں سے سب سے پہلی وجہ ہی یقین کا نا ہونا ہے، ان کے اندر واضح مقصد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے محنت بے سمت ہوگی اور مشکلات زیادہ۔

جب آپ خود پر اعتماد نہیں کرتے، تو آپ کے فیصلے اور کام متزلزل ہو جاتے ہیں یاد رکھیں ہارتا صرف وہ ہے جو ہار مان لیتا ہے۔ ڈر پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ آپ نئے مواقعوں کا فائدہ اٹھا سکیں۔