عائشہ فیض
اکثر والدین بچوں کی پڑھائی اور دیگر اخلاقیات کی تر بیت پر خاص تو جہ دینے میں معاشرتی اخلاق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اگر والدین پانچ چھ برس کی عمر سے ہی بچے کو اخلاقی تربیت کی ابتدائی تعلیم دینا شروع کردیں تو اساتذہ اور دوسرے بزرگوں کی رہنمائی سے یہ تر بیت اس کے کردار پر خاطر خواہ اثر ڈال سکتی ہے۔
پانچ چھ برس کی عمر میں گھر کے ماحول بھی بچے کے اخلاق پر اثر انداز ہونے لگتا ہے۔ والدین کے رہن سہن کے انداز قابل تقلید معیار کے طور پر اپنی دل فریبی کھوتے چلے جاتے ہیں۔ دوسروں میں اس کی دلچسپی بڑھنے لگتی ہے اور ان کے کردار اور شخصیت میں خوش گوار تغیر رونما ہوتا ہے اس وقت اجتماعی مشاغل میں بچے کی دلچسپیاں تیز ہوجاتی ہے ان دلچسپیوں کے صحیح سمتوں میں بڑھنے کے لیے بچے کی مناسب رہنمائی ہونی چاہیے۔
معاشرتی نشوونما میں جذبات بہت اہم حصہ لیتے ہیں بچے کا جذباتی نظام زیادہ تر والدین کی جذباتی عادتوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ ابتدا میں بچہ اپنے والدین پر بے انتہا جذباتی فخر محسوس کرتا ہے وہ ان کے کردار اور اطوار کو اخلاق اور انسانیت کا بہترین نمونہ سمجھتا ہے بدمزاج اور ترش رو والدین اپنی غیر متوازن زندگی سے اپنے بچوں پر برا اثر ڈالتے ہیں اور ان کے بچے بھی عموماً غصیلے اور جھگڑالو ہو جاتےہیں۔
بچے کی معاشرتی تربیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انہیں دوسروں کے حقوق نظریوں اور خواہشوں کا احترام کرنا سکھایا جائے۔ ورنہ ان کی معاشرتی اور اقتصادی زندگی بھی خطروں اور حادثوں کی نذر ہوجاتی ہے ان مضر رجحانوں کا مناسب علاج کرانے کے لیے بچے کو دوسرے پر اپنے کردار کا اچھا یا برا اثر مشاہدہ کرنے کی معاشرتی تربیت دینا ضروری ہے۔
تربیت کے اس عمل کو دلچسپ اور آسان بنانا چاہیے اپنی ذاتی الجھنوں اور نظریوں کو بچوں پر اندھا دھند تھوپنے سے گریز کرنا چاہیے اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بات کو سمجھنے کے لیے بچوں کے اپنے انوکھے اور انفرادی طریقے یا تو ہوتے ہی نہیں اور اگر ہوں تو تعلیم و تربیت کے سنجیدہ عمل میں ان طفلانہ طریقوں کو کامیابی سے ٹھکرایا جاسکتا ہے۔
ان کی زندگی کے ان ادوار کے مخصوص تقاضوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے اس وقت بچے کو ایسی تعلیم دینی چاہیے اور ایسے کام سونپنے چاہییں جو اس کی جسمانی اور ذہنی سطح سے بلند نہ ہوں بچوں میں اپنے ہر فرض اور ہر مقام کو خود پہنچانے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے ابتدائی معاشرتی تعلیم و تربیت میں ان تمام باتوں کا خیال رکھا جائے تو بچے کا کردار معاشرے کی قدروں اور معیار کے قریب آجاتا ہے اور زندگی کے کسی مقام پر اس کے خلاف حرکتوں کے سرزد ہونے کا امکان بہت کم ہوجاتا ہےاور اس طرح بچے کےاخلا ق کی تر بیت بہت اچھے سے کرسکتے ہیں۔