رابطہ … مریم فیصل پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اسموگ کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ہر سال سردیوں کے آغاز میں پورا صوبہ دھند کی لپیٹ میں ہوتا ہے اور صوبے کے لوگ اسی میں سردیاں گزارتے ہیں لیکن کبھی بھی اس دھند سے لوگوں کو نکالنے کے لئے تدابیر اختیار کرنے کی جانب سوچا نہیں گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ دھند گہری ہوتی جارہی ہے۔ سردی تو ویسے بھی نزلہ، کھانسی ساتھ لاتی ہے، اب یہ دھند ان بیماریوں کو مزید طاقت بخش رہی ہے اور لاہور کے ہسپتال مریضوں سے بھرتے جارہے ہیں، یہ دھند کیوں پھیلتی ہے خاص کر سردیوں میں ہی کیوں نازل ہوتی ہے اس بارے میں سب جانتے ہیں لیکن ان وجوہات کو روکنے کی کوششیں کون کرتا کیونکہ پاکستان میں ابھی بھی یہ شعور جاگ نہیں سکا ہے کہ safety precautions پر عمل کرنے کا سوچا جاتا۔ یہاں برطانیہ میں ہر سال برطانیہ کے لوگ برطانیہ میں ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے اپنی گاڑیوں کو سروس کروانے پر مجبور ہیں کیونکہ یہاں کے قوانین غلطی کی معافی نہیں بلکہ پینلٹی دیتے ہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی یہ الفاظ تو جیسے بنے ہی ترقی یافتہ ممالک کے لئے ہیں وہی اس کو کنٹرول کرنے کیلئے کوشؒشیں کرتے ہیں اور پاکستان جیسے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں تو بس یہ غور و خوض کرتی ہیں کہ دھرنوں کو کتنے کنٹینر لگا کر روکنا ہے، نا ہی اس سے متاثر ہونے والے اس دھند کو کم کرنے کیلئے خود سے کچھ سیکھنے کا سوچتے ہیں نا ہی حکومت۔ البتہ اس بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کورونا وبا میں جس لاک ڈاون کو پوری دنیا نے اپنے اپنے ملکوں میں نافذ کر کے عوام کو اس وبا سے بچانے کی کوشش کی تھی اور پاکستان میں عمران خان کی زیر نگراں حکومت نے ملکی معیشت کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسی لاک ڈاون کو جزوی تک ہی محدود رکھا تھا، اب صوبہ پنجاب اس لاک ڈاون کے زیر اثر ہے لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں اور تعلیمی ادارے بند، مطلب آن لائن تعلیم دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ ظاہر ہے صرف نام کیلئے ہی ہے کیونکہ انٹرنیٹ کا نظام پورے ملک میں سیاست کی نذر ہے تو ایسے میں گھرو ں سے کام اور آن لاین تعلیم کس بہترین طریقے سے جاری ہوگی اس بارے میں مزید تفصیلات میں جانا مطلب خود کو بطور پاکستانی شرمندہ کرنے جیسا ہوگا۔ یہ دھند کوئی عارضی مسئلہ نہیں ہے اسے حل کرنے کی ضرورت اب پہلے سے بھی بہت زیادہ ہے جس کے لئے پنچاب حکومت کے ترجمانوں کو صرف میڈیا پر بیٹھ کر اعلانات صادر کرنا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ ماحولیات کے ماہرین سے باقاعدہ مشورے کر کے باقاعدہ ٹریننگ ان لوگوں کی کرنا ہوگی جن کابراہ راست تعلق اس دھند کو پھیلانے سے بنتا ہے۔