کراچی ( زیب النسا برکی )یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اس وقت عجیب صورتحال کا سامنا کر رہی ہے کیونکہ اس کے بانی چیئرمین عمران خان قیادت کے منصب پر نہیں ہیں۔ ایک ایسی جماعت، جو ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کی خاندانی سیاست پر تنقید کرتی آئی ہے، اب خود اسی صورتحال میں نظر آ رہی ہے۔ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی بہن علیمہ خان کے پارٹی میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے سوال اٹھا دیے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی اپنے ہی اصولوں پر قائم رہ سکے گی؟ پارٹی کے رہنما اور ترجمان ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں، لیکن یہ تاثر اب بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے پارٹی کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں۔پارٹی کی قیادت کا سوال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ممکنہ امیدوار کون ہیں اور وہ کیا نمائندگی کرتے ہیں؟ بیرسٹر گوہر خان، جو قانونی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، ایک امکان ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کی عوامی اپیل اور سیاسی کرشمے کی کمی ان کے لیے پارٹی کے کارکنان کو متحرک کرنا مشکل بنا سکتی ہے۔پھر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ہیں، جن کی اشتعال انگیز تقریریں پی ٹی آئی کی جارحانہ سیاست کی علامت ہیں۔ ان کی قیادت پارٹی کے سخت گیر حمایتیوں کو متحرک کر سکتی ہے لیکن معتدل ووٹرز کو دور کر سکتی ہے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان، جنہوں نے ہمیشہ سیاست سے دوری رکھی ہے، اپنی بھائی کی میراث کے ساتھ قریبی وابستگی کی وجہ سے پارٹی کو متحد رکھنے والی شخصیت بن سکتی ہیں۔