جنہیں ہم کہہ نہیں سکتے، جنہیں تم سن نہیں سکتے
وہی باتیں ہیں کہنے کی، وہی باتیں ہیں سننے کی
یہ شعر میں نے پہلی بار 1957ءمیں سنا تھا۔ جبر کے ہر موسم میں یہ ذہن کے کسی کونے سے نکل کر سامنے آجاتا ہے۔ دور جمہوری ہو یا آمرانہ۔ میڈیا پرنٹ ہو یا برقی۔ یہ پاکستان کے اوائل میں بھی نوشتۂ دیوار تھا۔ اب 77سال بعد بھی ہے۔ ان 77سالوں میں کتنی نسلیں پیدا، جوان، بوڑھی ہوچکیں۔ کہنے سننے کی حسرتیں ساتھ لے کر چلی گئیں۔ کتنی سخنہائے گفتی۔ اَن کہی رہ گئیں۔ شہر کا یہ غریب کچھ کہنے والی باتیں رکھتا ہے۔شہر یاروں کی یہ جستجو ہوتی تھی کہ کوئی جہاندیدہ، تجربہ کار،دانشمند مل جائے تو اس سے کچھ سیکھا جائے۔ تربیت کی ضرورت انسان کو عمر کے ہر دَور میں ہوتی ہے اور جب شہر یار اس زعم میں مبتلا ہوجائیں کہ ہم ہی عقل کل ہیں ہم ہی سب کچھ جانتے ہیں۔ رموز مملکت بھی۔ امور عسکری بھی۔ خارجی بھی داخلی بھی۔ اور آپ دانش سے اپنا رشتہ کاٹ لیتے ہیں تو Disconnect ہوکر رہ جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں تاریخ بار بار شرمسار ہوتی رہی ہے۔ جغرافیہ ٹسوے بہاتا رہا ہے۔ ہمارے خود ساختہ حکمراں یہ سمجھتے رہے ہیں کہ تاریخ، جغرافیہ ان کی مٹھی میں ہیں۔ جب چاہیں وہ تاریخ میں سے اوراق پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔ جب چاہیں جغرافیے میں چائنا کٹنگ کر دیں۔ حالانکہ ان کی مٹھی میں محض ریت ہوتی ہے۔ جو ان کی انگلیوں میں سے رستی رہتی ہے۔ اور ایک رات ان کی مٹھی کھل جاتی ہے۔ اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ سوائے حسرت و یاس کے۔ ہم ڈراموں میں یہ مکالمے سنتے ہیں کہ پیسے سے سب کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ خریدے ہوئے لوگ طعنے دیتے رہتے ہیں کہ تم سمجھتے ہو۔ زر سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔
پہلی کتنی دہائیاں ہم تاریخ کی بھول بھلیوں سے گزرتے رہے ہیں۔ چیختے چلاتے رہے ہیں۔ پھر وقت آتا ہے کہ تاریخ کو سیدھے راستوں کی بجائے کوہساروں، ندی نالوں، کئی پہاڑیوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ تاریخ کی پیشانی دیدنی ہوتی ہے۔ جب وہ ایک رکاوٹ عبور کرکے دوسری رکاوٹ کیلئے تیار ہورہی ہوتی ہے۔ راہ کو پر خار دیکھ کر جی خوش ہوتا ہے۔ تاریخ کے قافلے جب ان دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرتے ہیں تو صدیاں رقص کرتی ہیں، ہزاریے تالیاں بجاتے ہیں، شب و روز رزمیے پڑھے جاتے ہیں،مزاحمت کے جذبات وہی ہوتے ہیں،اوزار بدلتے رہتے ہیں۔ ہنر مند وقت کے ساتھ ساتھ اپنے طریقے اپنے آلات بدلتے ہیں۔ جب کہ حملہ آور اپنے ہتھیار تبدیل کرتے ہیں۔ وقت مشاہدہ کرتا ہے کہ گھوڑوں کی ٹاپیں، ٹینکوں کی دھاک میں ضم ہو رہی ہیں۔ بیل گاڑیوں کی روں روں بسوں کوسٹروں ڈالوں کے ہارنوں میں مدغم ہو رہی ہے۔پہلے ایسے بحرانوں میں حکام بالا و ادنیٰ قلم روک کر بیٹھ جاتے تھے۔ فائلیں افسروں کا منہ تکتی رہتی تھیں۔ ریڈیو سے کان لگ جاتے تھے۔ وزیر مشیر اپنے سیکرٹری کو بلا کر پوچھتے تھے کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہونے والا ہے۔ اندر کی خبر کیا ہے۔
راجدھانیوں میں اضطراب ایک معمول کا عمل ہے۔ اس وقت عالمی راجدھانی خود اقتدار کے انتقال کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ مختلف محکموں کے وزیر چن لیے گئے ہیں۔ وہاں وزیر سیکرٹری کہلاتا ہے۔ جانے والا سربراہ آنے والوں سے ملتا ہے۔ اپنی میراث اس کے حوالے کرتا ہے۔ دونوں کو احساس ہوتا ہے کہ یہ اقتدار امانت ہے، خلق خدا کی۔ ابھی یہاں دنیا میں خلقت کے آگے جواب دہ ہونا ہے اور اوپر خالق حقیقی کے حضور۔ اس لیے آنے والا امانت داری کے طور طریقے سیکھنا چاہتا ہے۔ پہلے والے کی تختیاں اتارکر نہیں پھینکتا۔ اس کے دور کو بھی تاریخ کا ایک لازمی حصہ سمجھتا ہے۔ برطانیہ جسے پارلیمنٹوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ وہاں 90کی دہائی میں جان میجر وزیر اعظم تھے۔ کنزرویٹو پارٹی سے۔ 1997تک وہ رہے۔ پھر لیبر پارٹی کو قریباً ایک دہائی بعد اقتدار ملنے والا تھا۔ ٹونی بلیئر کی آمد آمد تھی۔ جان میجر اس تبدیلی سے خوفزدہ نہیں تھے۔ نہ وہاں اقتدار سے محرومی کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ انہیں یہ تشویش تھی کہ لیبر پارٹی کئی سال سے انتظامیہ سے باہر رہی ہے۔ اب ان کے ہاں حکمرانی کا تجربہ کسی کو نہیں ہے۔ انہوں نے لیبر پارٹی کو اس صورت حال کے حوالے سے خط لکھا اور کہا کہ آپ اپنے ہاں سے کچھ افراد کو نامزد کریں۔ جنہیں حکمرانی کے امور کی تربیت دی جائے۔ لیکن آپ کو اس کی فیس ادا کرنا پڑے گی کیونکہ آپ ابھی حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔
یہ جذبہ ہوتا ہے۔ ملک کو آگے لے جانے کا ۔ اس افراتفری کے دَور میں ہمیں ’نیپا‘ جانے کا اتفاق ہوا۔ کراچی میں ہر رہائشی کو کبھی نہ کبھی نیپا چورنگی سے گزرنا پڑتا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن۔ یہ ایک گوشہ ہے۔ جہاں تربیت کی دنیا آباد ہے۔ جہاں ملک کی بیوروکریسی کی پرورش کی جاتی ہے۔ اب یہاں صاحب مطالعہ بہت شائستہ گفتگو کرنے والے۔ حلقۂ یاراں میں شبنم کی طرح نرم ڈاکٹر سید سیف الرحمن ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں یہاں بڑے نیک نام پاکستانی افسر آئندہ نسلیں تیار کرتے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں ’نیپا‘ کو ’نم‘ بھی کر دیا گیا تھا۔ کوئٹے میں ہمیں وہاں چند دن گزارنے کا موقع ملا تھا۔ لاہور میں سروسز اکیڈمی ہے۔ سیف الرحمن صاحب کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہمیشہ ہوتی ہے وہ یہی مسکراہٹ نیپا کے در و دیوار، سبزہ زار اور فضائوں میں لانا چاہتے ہیں۔ جب ہمارے مستقبل کے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، مختلف گریڈ کے حکام یہاں زیر تربیت ہوں تو ان کا آس پاس انہیں اپنی بانہوں میں لے لے۔ وہ اسے جبر نہ خیال کریں۔ اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کیلئے تمام منازل اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے درخت لگائے جا رہے ہیں۔ ایک ’گل مہر‘ ہم نے بھی اپنے نام کرلیا۔ گل مہر کراچی کا خاص پیڑ ہے۔ گرمیوں میں نارنجی، گلابی، اودے، سفید، سرخ پھول کھلاتا ہے۔ پھر ہمارے قدموں میں بچھاتا ہے۔ ’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔‘ ایک دیوار پر نقش کردیا گیا ہے۔ اور اسکے اوپر ایک کلاک۔ وقت کی نشاندہی آج کل موبائل سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ دیوار گیر ہو تو زیادہ متحرک رکھتا ہے۔ سیف الرحمن صاحب امریکہ میں تربیت حاصل کر کے آئے ہیں۔ اسلئے نیپا کو بھی ہارورڈ کے معیار پر لے جانا چاہتے ہیں۔ لائبریریوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ چلتے چلتے ہم نے اپنے مستقبل کو مصروف عمل بھی دیکھا۔1953میں فسادات پنجاب پر سرکاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان فسادات پر ایک ایس ڈی ایم اور ایک ایس ایس پی قابو پاسکتا ہے۔قومی اور صوبائی حکومت کو اس میں کودنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بھی تربیت کا حصہ ہونا چاہئے۔ لیکن اس سے زیادہ یہ کہ یہاں جو تربیت دی جائے۔ اصول سکھائے جائیں۔ وہ ان افسروں کو استعمال بھی کرنے دیے جائیں۔ ان پر دوسرے ادارے ایم این اے۔ ایم پی اے دبائو نہ ڈالیں۔