(گزشتہ سے پیوستہ )
میں ماڈل ٹائون کا احوال بیان کرنے کے ضمن میں اپنے قارئین کو بہت ’’لارے‘‘ دے چکا ہوں جونہی اس کا احوال بیان کرنے لگتا ہوں کوئی اور موضوع ذہن میں آ جاتا ،بہرحال اب ماڈل ٹائون چلتے ہیں باغات میں گھرا ہوا یہ علاقہ اس زمانے میں اتنی دور لگتا تھا کہ جب ماڈل ٹائون سے باہرجانا ہوتا تو کہا جاتا ہم آج شہر جا رہے ہیں۔ اس سوسائٹی کا نقشہ ایک ہندو انجینئر نے تیار کیا تھا کوئی پلاٹ چھ کنال سے کم نہیں تھا۔ اسے مختلف بلاکس میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ اے بلاک سے اس کا آغاز ہوتا تھا اور یہ بالترتیب بی، سی ،ڈی، ای وغیرہ تک پھیلا ہوا تھا ۔ہر بلاک کےدرمیان میں ایک وسیع وعریض پلے گرائونڈ تھا میں اس بلاک میں رہتا تھا جہاں مسعود علی خان اکی، فصیح الدین خالدی جسے ہم عموماً حتمی کہتے تھے منیر احمد شاہ، طارق بخاری اور مالک سے میری دوستی ہو گئی کیسے ہو گئی یہ مجھے علم نہیں ان سب کے والدین مالدار تھے اور میرا تعلق ایک سفید پوش خاندان سے تھا مگر ابا جی مولانا بہائوالحق قاسمی قیام پاکستان سےقبل اور بعد میں بھی کلمہ حق کہنے کی پاداش میں جیل جا چکے تھے، انہیں اس بات پر فخر تھا کہ ان کا خاندان آٹھ سو سال سے علم وعمل میں یکتا رہا ہے اور ان ادوار میں تاریخ کی جید شخصیات ہمارے خاندان کی شاگرد رہ چکی ہیں جن میں مجدد الف ثانی بھی شامل تھے۔ ابا جی مجھے ہمیشہ یہ بات کہتے کہ کسی کے مال و فعال سے متاثر نہیں ہوتے اس کی عزت اس کے علم و عمل سے ہوتی ہے چنانچہ مجھے ان دوستوں سے اتنی محبت ملی کہ کمی بیشی کے حساب کا کوئی موقع ہی نہ ملا ۔اس زمانے کا ماڈل ٹائون واقعی پرسکون بستی تھی اور امن وامان کا یہ عالم تھا کہ لڑکیاں رات کو بارہ بجے بھی بلا خوف وخطر سیر کیا کرتیں کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کی طرف بری نگاہوں سے دیکھ سکے کہ سب جانتے تھے کہ کون کس کا بیٹا اور کون کس کی بیٹی ہے ۔ماڈل ٹائون کے لوگوں نےاپنے ماحول میں دخل اندازی کے خیال سے وہاں سینما نہیں بننے دیا کہ اس کی وجہ سے باہر کے لوگ بھی ماڈل ٹائون آنا شروع ہو جائیں گے مگر جب کلب چوک سے ایک سڑک قریبی بستیوں تک بھی نکالی گئی اس کے بعد اس انوکھی بستی کی پرائیویسی ختم ہو کر رہ گئی اب ویگن بھی ادھرسے گزرنا شروع ہو گئی اور بالکل اجنبی لوگ بھی یہاں دکھائی دینے لگے۔
اس ’’سانحہ‘‘ سے پہلے ماڈل ٹائون کی اپنی بس سروس تھی سرخ رنگ کی بسیں تھی ان کا پائیدان بس کے آغاز میں ہوتا اور اتنا چوڑا ہوتا کہ اس ’’دالان‘‘ پر کھڑے کھڑے ہی سفر کیا جاسکتا تھا اس بس کا اڈہ سی بلاک کے اس مقام پر تھا جس کا نام ہی اڈا پڑ گیا تھا وہاں سے مسافر بیٹھتے اور تمام بلاکس سے ہوتے اس تاریخی شہر کی طرف جاتے۔
اس دور میں صورتحال یہ تھی کہ ماڈل ٹائون سے نکلنے کےبعد پہلا اسٹاپ اچھرہ ہوتا تھا باقی علاقہ قریباً خالی تھا دوسرا اسٹاپ مزنگ چونگی ہوتا اور درحقیقت پچاس برس قبل اس کے روٹ میں یہی آباد بستیاں آتی تھیں سرخ رنگ کی اس بس کی آخری منزل رتن چند کی سرائے تھی جو روزنامہ امروزکے قریب تھی وہاں ماڈل ٹائون جانے والے مسافر پہلے سے اس بس کے انتظار میں ہوتے تھے لگتا تھا جیسے کسی گائوں کو جانے والے مسافر اپنی بس کے انتظار میں ہیں۔
ویسے تو میرے سارے دوست رونقی اور اپنے اپنے طور پر ’’کریکٹر‘‘ تھے مگر ان میں سے مالک ہم سب سے دس قدم آگے تھا ایک دن ہم دوست اسی کے گھر کے سوئمنگ پول میں نہا رہے تھے کہ کسی شرارتی دماغ میں یہ بات آئی اور اس نے اعلان کیا کہ ہم میں سے جو بھی اپنے جسم میں اکلوتا انڈر ویئر اتار کر اسی کی کوٹھی کے ایک گیٹ سے نکلے گا اور سامنے کے کھوکھوں سے گزرتے اگلی سڑک پر دائیں جانب مڑ کر اسی کے گھر کے دوسرے گیٹ سے داخل ہو گا اسے دس روپے انعام میں دیئے جائیں گے۔ یہ تقریباً 65 سال پہلے کی بات ہے اور دس روپے کی رقم معمولی نہ تھی۔ یہ سنتے ہی مالک’شرط‘ پوری کرتے ہوئے پہلے گیٹ سے باہر سڑک پر آ گیا، یہ جولائی کا مہینہ تھا لگتا تھا سورج ہمارے سر سے ایک فٹ اونچا ہے۔ چنانچہ دوپہر کا سناٹا صورتحال کو پر اسرار سا بنا رہا تھا اتنے میں ایک دیہاتی سر لٹکائے مالک کے قریب سے گزرا، مالک کے منہ میں سگریٹ تھا۔ اس نے اجنبی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’بھائی صاحب آپ کے پاس ماچس ہو گی، اس نے جب اس ماحول میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے جسم پر کوئی لباس نہ تھا، تو وہ چیخ مار کر بھاگ گیا اس نے سمجھا کہ شاید یہ کوئی جن بھوت ہے‘‘۔
اسی طرح کی شرارت کے علاوہ ایک شرارت بہت دلچسپ اور اخلاق سدھار تھی، طے پایا کہ جو بھی گفتگو میں گالی دے گا سب دوست اسے دس دس مکے ماریں گے۔ اب اس پر عمل شروع ہوا تو سب کو سانپ سونگھ گیاکہ یہاں تو بات بات پر گالی دی جاتی تھی۔ تھکن کے اس ماحول میں مسعود علی خاں کو ایک تجویز سوجھی، اسے علم تھا کہ مجھے آمریت سے سخت نفرت ہے چنانچہ میں ایوب خان کے بارے میں اول فول بکتا رہتا تھا چنانچہ مسعود نے کہا یار عطا تم تو خواہ مخواہ ایوب خان کو برا بھلا کہتے ہو وہ تو بہت اچھا حکمران ہے۔ یہ سن کر میری زبان پھسلنے ہی لگی تھی کہ طے شدہ شرط یاد آ گئی اور میں نے چپ سادھ لی اور اس وقت ہم دوست سیر سپاٹے کیلئے مری جا رہے تھے۔ ابھی مزید کچھ آگے گئے تھے کہ خالدی نے ایوب خان کا قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ میں نے پانچ سات گالیاں دیں۔ اس دوران میرے یہ خبیث دوست انگلیوں گالیاں گنتے رہے ۔ پتہ چلا کہ میں نے پانچ گالیاں دی ہیں، اس کا مطلب فی کس پچاس مکے اور یوں چار دوستوں نے مجھے دو سومکےمارےاورہر ظالم نےپورے زور سے مارے۔ میں نے مری پہنچ کر ایک مالشیا ہائر کیا اس نے ایک گھنٹہ میرے دکھتے بدن کو صبر کی تلقین کی۔ (جاری ہے)