• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: کونسلر قیصر عباس… لندن
برطانیہ میں 10سے 17نومبر کو مذہبی ہم آہنگی کا سالانہ ہفتہ منایا گیا اور اس سلسلے میں ملک بھر میں تقریبات اور سیمینارز کا اہتمام بھی کیا گیا جس کا مقصد برطانوی معاشرے میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز، ایک دوسرے کو عقائد کو سمجھنے اور دوسروں کے عقائد کے احترام بارے آگاہی بیدار کرنا ہے۔ بلاشبہ برطانوی معاشرہ ایک کثیر جہتی اور مختلف عقائد کے ماننے اور نہ ماننے والوں کا ملک ہے۔ اگرچہ برطانیہ ایک اکثریتی عیسائی ملک ہے لیکن اس کے سکولوں میں جہاں دیگر مذاہب کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے وہیں نئے مذاہب اور کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔ یہاں پر مساجد، امام بارگاہوں اور مدارس سمیت مختلف مذاہب و عقائد کی سیکڑوں عبادت گاہیں اور تعلیمی ادارے موجود ہیں اور حکومت لوگوں کو قانون کے اندر رہتے ہوئے ان کے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی بھرپور آزادی دیتی ہے۔ برطانوی معاشرہ برداشت اور رواداری میں ایک مثال ہے۔ اسی لئے برطانیہ میں ہندو مذہب کا ماننے والا وزیراعظم، مسلمان وزراء اور متعدد دیگر مذاہب کے حامل لوگ مختلف سیاسی و سرکاری عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے معاشرے کی بہتری کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہی خصوصیات کے سبب چھوٹے رقبے اور کم آبادی کے باوجود برطانیہ ہر لحاظ سے دنیا میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ برطانیہ کے برعکس پاکستان ایک اکثریتی سنی مسلمان ملک ہے۔ سیاست اور سماج پر مذہب کا گہرا آثر ہے۔ اقلیتی مذاہب و عقائد کے ماننے والوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ روز مرہ کے امور ہوں، قانون سازی ہو یا کسی بڑے عہدے پر تعیناتی، معاشرہ مذہبی عدم برداشت کا شکار ہے۔ مختلف حکومتیں بھی مذہب کو گاہے بگاہے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہتی ہیں جس سے جنونی مذہبی حلقوں کو مذید تقویت ملی ہے، حال ہی میں جس طرح سے سیکورٹی کے درمیان چلتی گاڑیوں میں ایک خاص مذہبی تشخص کے حامل لوگوں، شیر خوار بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا گیا ہے وہ انتہائی افسوسناک اور افسردہ ہے، ایسے واقعات کا تواتر سے ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم بحثیت قوم و معاشرہ عدم برداشت کی انتہا کو چھو رہے ہیں اور کوئی بھی حکومت اس سلسے میں اپنا صحیح کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جس کا نتیجہ مذہبی، علاقائی اور نسلی پرتشدد واقعات کی صورت میں وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے۔ ان واقعات میں ہزاروں لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، کئی خاندان بے گھر و تباہ ہو چکے ہیں۔ ان واقعات کا برا اثر معیشت سمیت تقریبا ہر شعبہ زندگی پر بھی پڑا ہے۔ وقت آ گیاہے کہ ہم بحثیت قوم و حکومت اپنی روش بدلیں اور سمجھیں کہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی وطنوں کا قتل عام اور املاک کا نقصان ہم سب کا نقصان ہے۔ سکولوں اور مدارس کے نصاب پر نظرثانی کی جائے اور تفرقہ و نفرت پھیلانے والی قوتوں کا راستہ روکا جائے۔ آئیں مل کر سب اپنا اپنا کردار ادا کریں اور قرآن پاک کے رہنما اصولوں ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘ اور’’جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے دیگر لوگوں کے عقائد کے احترام کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کی قدر کی اہمیت کو سمجھیں اور عہد کریں کہ ہم مذہبی نفرت کے لبادے میں لپٹے لوگوں کی شر انگیزی کو روکیں گے اور بحثیت پاکستانی اپنے ہم وطنوں اور املاک کی حفاظت یقینی بنا کر پاکستان کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔
یورپ سے سے مزید