کراچی(سید محمد عسکری) صدر مملکت آصف زرداری کی سندھ کی جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے پالیسی اور طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ہدایت کو نظر انداز کر کے بیوروکریٹ وائس چانسلر لگانے اور پی ایچ ڈی کی شرط اختیاری کرنے کی کوششوں سے سندھ حکومت کو جامعات کے اساتذہ اور سیاسی پارٹیوں کی سخت مخالفت کا سامنا ہے۔
صدر آصف زرداری کی ہدایت پر رواں سال 6 اگست کو ان کے سکریٹری شکیل ملک کی جانب سے لکھے گئے خط میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو کہا گیا تھا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ وائس چانسلر کی زیادہ تر صوبے کے سے تعلق رکھنے والے امیدواروں سے بھری گئی ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت کی خواہش ہے کہ نوجوان نسل کے فائدے کیلئے وائس چانسلرز کی بھرتی کے عمل کو مزید کھلا اور مسابقتی بنایا جائے۔ یہ عمل تمام پاکستان کی بنیاد پر بین الاقوامی معیارات اور ایکریڈیٹیشن کے مطابق ہونا چاہیے۔
مزید برآں، اعلیٰ درجے کے عالمی ٹیلنٹ کوراغب کرنے کیلئے، بین الاقوامی فیکلٹی کی مشغولیت کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔ تاہم صوبائ حکومت نے صدر کے خط کی روشنی میں وائس چانسلرز کے بھرتی کے عمل کو مسابقتی اور بہتر بنانے کے بجائے بیوروکریٹ وائس چانسلر مقرر کرنے کے لیے راستہ ہموار کیا۔
واضح رہے کہ سندھ میں وائس چانسلر کے تقرر کے لیے جو بھی اشتہار دیئے گئے اس میں سندھ کا ڈومسائل کو لازمی قرار دیا گیا تھا جس کی وجہ سے سندھ سے باہر اور بیروں ملک سے موصول درخواستوں کو مسترد کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے سندھ کی جامعات میں زیادہ تر گنے چنے افراد ہی وائس چانسلر کے عہدے کے لیے منتخب ہوپاتے تھے کوئ امیدوار ایک یونیورسٹی میں پہلے دوسری یونیورسٹی میں دوسرے اور تیسری تیسری یونیورسٹی میں تیسرے نمبر پر ہوتا تھا اور زیادہ تر یہی امیدوار آگے پیچھے ہوتے تھے۔
اس کے علاوہ سندھ میں وائس چانسلر کی عمر کی حد بھی 62برس مقرر ہے جب کہ باقی تینوں صوبوں اور وفاق میں وائس چانسلر کی عمر کی حد 65 برس مقرر ہے یہی وجہ ہے گزشتہ ڈیڑھ برس سے سندھ کی شہید زولفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء مستقل وائس چانسلر سے محروم ہے کیونکہ ہائیکورٹ کا جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62سال ہونے کے باعث وہ وائس چانسلر کی دوڑ سے باہر ہوجاتا ہے۔
اس وقت تلاش کمیٹی کی سفارش کے باوجود گزشتہ ایک برس سے لاڑکانہ یونیورسٹی اور صوفی یونیورسٹی بھٹ شاہ کے وائس چانسلر کا تقرر نہیں کیا جارہا ہے۔