فصیح الملک مرزا خان داغ دہلوی کا نام کے ساتھ ہی آردو کی فصاحت، سلاست، تاثیر، سادگی، پرکاری اور روانی کی طرف ذہن خودبخود چلا جاتا ہے۔ داغ صرف ایک زبان داں اور شاعر ہی نہ تھے بلکہ زبان و بیان، فکروفن، معنویت و داخلیت اور ایجاز و رمزیت کا ایک ادارہ، ایک دبستاں اور ایک مکتبہ خیال تھے۔
خود ہی اپنے انگ کے موجد اور خود ہی خاتم! انہیں زندگی ہی میں زباں دانی کے ذیل میں اپنی اہمیت کا احساس ہوگیا تھا اور غالباً اسی احساس نے ان سے یہ شعر لکھوایا؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے کہ ان کی زبان کی دھوم ان کی زندگی ہی میں برصغیر میں مچ گئی تھی اور اسی دھوم کے اعجاز نے کتنے ذہن خوش فکرافراد کو ان کی شاگردی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ ان کے ہزاروں شاگردوں میں سے کچھ شاگرد فکر وفن کی آبرو تسلیم کئے جاتے ہیں۔
مثلاً میر محبوب علی خان نظام دکن، نسیم بھرت پوری، احسن مارہروی، نوح ناروی، نواب عزیز یار جنگ عزیز، میر حسن علی خان امیر، بیخود دہلوی، سائل دہلوی، بیخود بدایونی، ڈاکٹر سر محمد اقبال، جالب دہلوی، ثاقب بدایونی، وجاہت جھنجھانوی، سیماب اکبر آبادی، جوش ملسیانی، ناطق گلاؤٹھی، مولانا محمد علی جوہر، جگر مرادآبادی، آغا شاعر دہلوی اور میر عثمان علی خان نظام دکنی وغیرہ جو لوگ انہیں صرف معاملہ بند سمجھتے ہیں۔
انہوں نے داغ کو جستہ جستہ پڑھ کر، ان کے چند اشعار سن کر ان پر ’’معاملہ بند‘‘ کا حکم لگا دیا ہے۔ ان کی معاملہ بندی میں جو روزمرہ تیکھا پن، محادورے کی چاشنی، شوخی کی حلاوت اور نزاکت کی شگفتگی موجود ہے، اس پر ان کی نظر نہیں گئی۔ داغ اول و آخر ’’زباں داں‘‘ اور شاعر تھے۔ زباں دانی اور محاورہ ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔
لوہارو کے رئیس شمس الدین خان کے بیٹے نواب مرزا خان داغ 25؍مئی 1831ء کو دلی کے محلے چاندنی چوک میں پیدا ہوئے ۔ غدر کے ہنگامے میں دلی میں گورنر جنرل کے ایجنٹ ولیم فریزر کے قتل کے الزام میں جب نواب شمس الدین کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو داغ اپنے خالو نواب یوسف علی خان کے ساتھ رامپور میں قیام پذیر ہوگئے جہاں انہوں نے مولوی غیاث الدین سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔
چند سال بعد جب ان کی والدہ بہادر شاہ کے ولی عہد مرزا فخرو سے وابستہ ہوگئیں تو داغ، والدہ کے ساتھ قلعہ معلیٰ میں منتقل ہوگئے۔ زبان دانی کا عطیہ قلعہ معلیٰ ہی کی دین ہے۔ قلعہ معلیٰ دلی کی ٹکسالی زبان محاورے اور ادائیگی کا مرکز و محور تھا۔ زبان دانی کی اس فضا میں داغ کا ’’مزاج‘‘ بنا اور یہ مزاج اور طبیعت اردو غزل کا معیار قرار پایا؎
اے کاش میرے واسطے تیرا یہ حکم ہو
… ان کو خلد میں جو کچھ ہوا ہوا
اتنا تو بتا دے مجھے اے ناصح مشفق
دیکھا ہے کہ اس ماہ لقا کو نہیں دیکھا
جب میں کروں سوال تو کہتے ہو چپ رہو
کیا بات ہے جواب نہیں اس جواب کا
لو اے بنو سنو کہ وہ داغ صنم پرست
مسجد میں جاکے آج مسلمان ہوگیا
بظاہر نہ جانے، نہ جانے، نہ جانے
تجھے داغ دل چاہتا ہے کسی کا
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایماں تو گیا
ہوش و حواس و تاب تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
ناصحوں سے کلام کون کرے
اپنی ایسوں سے گفتگو ہی نہیں
داغ کیا تم کو بے وفا کہتا
وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں
بات کرنی جسے نہ آتی ہو
بات کرنے کی اس کو تاب کہاں
میرے مرنے کی خبر سن کر کہا
واقعی کچھ بھی نہیں انساں میں
جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ
جان پیاری بھی نہیں جان سے
اب کی کچھ منہ سے نکالا تو تمہی جانو گے
داغ پھر مجھ کو نہ کہنا کہ برابر نہ کہوں
یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں
وہ ایک ہی تو شخص ہے تم جاتنتے نہیں
غزل کے اس معیار نے مکتبہ داغ کو جنم دیا۔ داغ نے ’’معاملہ بندی‘‘ کی فصیل کو توڑ کر بیشتر غزلوں میں انسانی نفسیات کے خوبصورت تجزیئے پیش کئے ہیں۔ حیدرآباد سے لے کر رامپور تک ان کی غزل نے شاہ و گدا کو مسحور رکھا۔
شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ غزل کے کسی ’’گلوکار‘‘ سے داغ کی غزل سنانے کی فرمائش نہ کی جائے۔ داغ خوش گو، خوش فکر اور مرنجان مرنج انسان تھے۔ ان پر مصائب بھی آئے اور آلام نے بھی انہیں اپنی لپیٹ میں لیا لیکن وہ؎
ہر رنج کو غزل میں سموتے چلے گئے
ان کی غزل لطافت کا ایسا گلزار ہے جس کی خوشبو قاری کو اسیر کرلیتی ہے۔ داغ نے طنزو تشنع کو ’’فن‘‘ بنا دیا ہے۔ غالب کے بقول داغ کا محبوب بھی؎
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
داغ حقیقت پسند بھی تھے، حسن پرست بھی . اور عاشق بامراد بھی! ان پر جو کچھ بیتی، جیسی گزری، انہوں نے بے کم و کاست اسے غزل کا حصہ بنا دیا۔ اپنے عشق کو تصوف اور عشق حقیقی کا رنگ دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
داغ کی غزل پڑھ کر ہم داغ کے ساتھ اس جہاں میں کھو جاتے ہیں جہاں زندگی اپنی تمام تر سچائیوں کے ساتھ جلوہ فرما ہوتی ہے۔ مصلحتوں، نزاکتوں اور تصنع سے بے نیاز داغ کے فکروفن کی بے ساختگی کی اور راست گوئی کی جو دنیا بسائی تھی، اس میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔