فکر فردا … راجہ اکبر داد خان ہر کوئی جانتا ہے کہ عمران خان کو سزائیں کس طرح دلوائی گئیں۔ ان کے خلاف کمزور ترین کیسز لگوا کر حاکمان وقت سزائیں دلوا چکے ہیں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ان کے خلاف اعلیٰ عدلیہ نے کئی کیس اٹھا باہر پھینک دیئے یا ایسے کیس موخر کر دیئے ، آج کل عمران خان کے خلاف صرف ایک ہی معاملہ عدالتوں کے سامنے ہے جس میں پراسیکیوشن بھی یہ تسلیم کر رہی ہے کہ عمران خان نے ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔عمران خان بھی ہم جیسا ایک انسان ہے اور اگر ہم میں سے اکثریت اپنے آپ کو کمزور مسلمان ماننے کیلئے تیار ہیں تو خان بھی ہمارے اس ہجوم کا حصہ ہے۔ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی اٹھان بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔ اگرچہ انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہتوں کی رائے میں یہ جماعت آج بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس جماعت کی کارکردگی ہم سب کیلئے مضبوط ترین ثبوت ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے آئینی اور جمہوری فیصلوں کے بدولت آج پی ٹی آئی پاکستانی عوام میں مقبول بھی ہے اور ملکی معاملات میں اس جماعت کے ردعمل کو کوئی بھی ہلکا لینے کیلئے تیار نہیں۔ عمران خان جیل میں ہیں ان کی رہائی عوام کے ایک بہت بڑے طبقہ کیلئے بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس سلسل میں بین الاقوامی میڈیا، اہم ممالک میں موجود قانون ساز افراد اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی رہائی کیلئے کوشاں ہیں۔ ایک حالیہ پاکستان وزٹ کے دوران میں نے جان بوجھ کر مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے لوگوں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ ملکی مسائل کے حل کیلئے کس چیز کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو ہر طرف سے یہی جواب ملا کہ عمران خان سے بات چیت کی جائے اور آگے بڑھا جائے۔ صدر زرداری بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) سے ملک اہل انداز میں نہیں چلایا جا رہا۔اس سے زیادہ کسی کو ان سے توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ خان کی رہائی کیلئے پرامن مظاہرے اور دھرنے ہی حقیقی حکمرانوں کے دلوں کو مائل رحم کر سکتے ہیں۔عمران خان کے حق میں تازہ ترین مظاہرہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اگرچہ مظاہرین بکھری ہوئی قیادت جو کسی بھی لحاظ سے مربوط اور منظم نہ تھی کی حالت دیکھ کر لوگوں کی بڑی تعداد باہر ہی نہیں نکلی۔ کے پی پاکستان کا حصہ اور صوبہ ہے اور علی امین گنڈاپور جو اس صوبہ کے وزیراعلیٰ ہیں اس احتجاج کے مرکزی کردار ضرور تھے۔ مگر ان کے اردگرد دیگر کے پی اکابرین، پنجاب سے جڑی ہوئی سیاسی قیادت اور صوبہ بلوچستان اور مضافات سے اٹھی قیادت کو کسی معنی خیز انداز میں آگے بڑھتے نہ دیکھ کر سیاسی کارکنوں کے حوصلے بلند ہونے کے بجائے نیچے گرتے دیکھ کر لوگوں نے ایسے احتجاج کی افادیت پر انگلیاں کھڑی کرنی شروع کر دی تھیں۔ اس حالیہ احتجاج کی کوئی سمت طے نہیں تھی۔ سیاسی احتجاج عموماً حکومت کے مراکز میں ہلچل پیدا کرتے کم ہی نظر آتے ہیں اور عام طور پر سیاسی جماعتیں ایسی تحریکیں چلا کر اپنے مقید رہنماؤں کیلئے صرف جیل مینویل میں دی گئی سہولتوں میں اضافہ حاصل کرکے مطمین ہو جاتی ہیں۔ عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں میں کمی صرف صدارتی اختیارہے اور پاکستان میں صدر زرداری ان کیلئے ذرا بھر ہمدردی بھی نہیں رکھتے ۔ سیاسی عدم استحکام کے دوران یہ احتجاج ملکی وسائل پر زیادہ بوجھ ثابت ہوا جس میں کئی شہادتیں بھی ہوئیں اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ ایسے حالات بالآخر ملک ٹوٹنے کے زمہ دار بن جاتے ہیں۔ یہ احتجاج اس طرح اختتام پذیر ہوا جیسے کہ صوبہ کے پی اور پاکستان دو دشمن اکائیاں ہوں اور ان کے درمیان بھاری دشمنانہ جنگ چل رہی ہے جو ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ تھوڑی دیر رک کر طرفین حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ حالات جس طرف بھی رخ کریں یہ حقیقت مملکت پاکستان کے پاسبانوں پر واضع ہو جانی چاہئے کہ کے پی کے عوام میں پاکستانی اکائی سے تاریخی مضبوط رشتہ بہت کمزور ہو چکا ہے، کیا ہماری ریاستی حکومتی اشرافیہ کا یہی کام رہ گیا ہے کہ ریاست پر حکمرانی اس طرح کی جائے جیسے باہر سے آئے ہوئے لوگ ماضی میں ہم پر کرتے رہے ہیں، آج ہم نے جس طرح کے پی سے جڑے لوگوں کو ’’پاکستانیت‘‘ سے توڑ کر کے پی ’’صوبائیت‘‘ کے سپرد کردیا ہے اس سے بڑی ملک دشمنی نہیں ہو سکتی۔ کے پی کے عوام پاکستان دوست ہیں ان کے جائز حقاق اور مطالبات کوایک مضبوط پاکستان کے پس منظر میں دیکھنا مقتدرہ اور دوسرے صوبوں اور جماعتوں کے قائدین کی اولین ذمہ داری ہے، حیران ہوں کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ ایسا کیوں نہیں سوچ رہے،چار اکائیوں پر مشتمل موجود ڈھانچہ ہی ایک مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ احتجاج اور مظاہرے عمران خان کی رہائی کیلئے موثر ثابت نہیں ہوں گے بلکہ ان بکھرے ہوئے اجتماعات نے خان کی رہائی کیلئے کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے، موجودہ حکومت ایسے اجتماعات سے نہ ہی ڈر کر گرنے جار ہی ہے اور نہ ہی خان کو کوئی بڑا ریلیف دینے کا سوچ رہی ہے۔ پی ٹی آئی اپنی ’’پاکستان سب سے پہلے‘‘ اپروچ پر کاربند رہ کر ہی پاکستانی سیاست میں اپنا مقام قائم رکھ سکے گی۔ عمران خان ایک بڑا رہنما ہے اور اسے صوبائیت کے ڈبہ میں بند کر دینا انصاف نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اس کی ٹاپ لیڈرشپ جیلوں میں بند ہے ، اس کے سیکڑوں درمیانی اور بنیادی سطح کے کارکنان قید ہیں، اس جماعت کو ان گناہوں کی سزا بھی مل رہی ہے جو اس سے جڑے لوگوں نے کئے ہی نہیں، پی ٹی آئی پر ظلم و ستم کا یہ دور ختم ہونا چاہئے، ایک بڑی جماعت سے اس طرح کا غیر منصفانہ سلوک نہ ہی اچھی سیاست ہے اور نہ ہی حکومت کی ایسی حرکتیں اس کے اخلاقی معیار کو اوپر اٹھاتی ہیں۔