ہائیڈ پارک … وجاہت علی خان تو کیا ہوا اگر میں اپنے حساب سے جینا چاہتا ہوں۔ تو کیا ہوا اگر میں ناحق، باطل، لغو، پوچ، واہیات، خرافات، بداسلوب، ناشائستہ، ناہنجار، غیر مہذب، نامعقول فرد سے راہ و رسم رکھنانہیں چاہتا،تو کیا ہوا اگر میں مصلحتوں کی بجائے صاف ستھری زندگی کا خواہاں ہوں اور خود کو رزق آتشین سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں موم کی طرح اس پیمانے میں فٹ ہونا نہیں چاہتا جو زمانہ مجھے فراہم کر رہا ہے،تو کیا ہوا اگر میرے اپنے اصول اور اپنی حدود ہیں، تو کیا ہوا اگر میں دوسروں کی توقیر کے بدلے اپنے لئے بھی عزت چاہتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں حرام کھانا اور نہ ہی حرام پینا چاہتا ہوں،تو کیا ہوا اگر میں وقت کی پابندی کرتا ہوں اور نہ کرنے والوں سے ناراض ہوتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں اکھڑ مزاج آدمی ہوں اور کڑوے سچ سے لوگوں کو ناراض کرتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں زمانے کی بے ثباتی پر جلتا بھُنتا اور گڑتا رہتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں مصلحت کوشی سے دور ہوں اور غلط کاری سے اجتناب کرتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں چاپلوس نہیں ، خوشامدی نہیں ہوں اور زمانے کے حساب سے نہیں چلتا، تو کیا ہوا اگر میں کاسہ لیس نہیں ،جی حضوری نہیں کرتا ، لالچی ، فاسد، بددیانت، بے اصول، بد چلن اور مفسد نہیں، تو کیا ہوا اگر میں کسی اور کے نہیں اپنے کا تب تقدیر کو مانتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں شخصیت پرست ، بت پرست ، Paranormal توہم پرستی Superstition اور خوف یا جہل کی وجہ سے غیر عقلی عقائد پر یقین رکھنے والوں کی توجیہات کو سرے سے تسلیم نہیں کرتا، تو کیا ہوا اگر میں اس زندگی کو پہلا اور آخری موقع سمجھتے ہوئےمخلوق کی بھلائی اور حق گوئی پر یقین رکھتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں The day of Judgement کی دَقِیقَہ رَسی کی بجائے اسی زندگی کو بہشت دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں بغض و عداوت اور شگر رنجی رکھنے کی بجائے بات منہ پر کر دینے پر یقین رکھتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں لگی لپٹی لگائی بجھائی کی بجائے کھری سچی سُچی بات کرنے کا عادی ہوں، تو کیا ہوا اگر میں بقول عرفی شیرازی ، عرفی تو می اندیش ز غوغائے رقیباں آواز سگاں کم نہ کند رزق گدا را ، یعنی عرفی تم کتوں اور دشمنوں کے شور و غل سے مت ڈرو کے قول کو دل سے مانتا ہوں،تو کیا ہوا اگر میں یہ مانتا ہوں کہ جھوٹ مکر و فریب دھوکہ دہی سےحاصل کی گئی کمائی سے خریدی گئی منرل واٹر کی بوتل بھی حرام ہے ،تو کیا ہوا اگر میں غلط سلط مفروضوں، اسا تیری قصے کہانیوں کی بجائے حقیقت گوئی پر ایمان اور آج کو گزرے کل یا آنے والے کل پرفوقیت دیتا ہوں،تو کیا ہوا اگر میں نے دیہاڑیاں نہیں لگائیں، بیشمار دولت کے انبوہ نہیں لگائے ، بنک بیلنس نہیں بنایا اور دونمبری سے مال بنانے والے جعلی وکیلوں، بدتمیز جھوٹے اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں، فراڈیئے بزنس مینز ، اور بہرو پیئے سماجی و مذہبی لیڈروں سے تعلقات نہیں بنائے، تو کیا ہوا اگر میں تُو تکار نہیں کرتا ، سوقیانہ بازاری گفتگو نہیں کرتا، تو کیا ہوا اگر میں ترکی بہ ترکی جواب اور اس کے کے بدلے پر یقین رکھتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں ، میں نہیں کرتا اور محفل کے ادب و آداب پریقین رکھتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں خیالاتی ، تصوراتی اور خوابی پر یوں کو بھینچ بھینچ کر گلے لگانے کی بجائے دن کے اجالے پر اکتفا کرتا ہوں، تو کیا ہوا اگر میں نے محبت کی تھی اور میرے عشق ناکام ہوئے لیکن میرے جذ بے تو سچے تھے تو پھر مجھ پر طعنہ زنی کس بات کی، توکیا ہوا اگر ہم جُدا ہوئے مگر خوشی ہے ملے تو تھے ،تو کیا ہوا اگر مڑے تھے راستے لیکن کچھ دور سنگ چلے تو تھے، تو کیا ہوا اگر دوبارہ ملیں گے کسی موڑ پر جو باقی ہے وہ بات ہوگی، جُدا ہوئے تھے قدم پھر ملاقات ہوگی کبھی، توکیا ہوا آخر اگر میں آئیڈیل زندگی گزارنے کے لئے سرگرداں ہوں تو پھر کیا ہوا تو پھر کیا ہوا ۔