• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا مفتی احمد الرحمٰن

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا، اُسے خوبصورت سانچے میں ڈھالا، ظاہری خوبیوں کے ساتھ باطنی کمالات سے بھی نوازا، اُسے عقل وشعور اور اِدراک کی قوت عطا کی، اپنی مخلوق میں سب سے بہتر اور اشرف قرار دیا، حتیٰ کہ اپنی معصوم مخلوق فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا خلیفہ بنایا اور علم کی دولت سے مالا مال کرکے اس کی برتری ثابت کی، پوری کائنات کو اس کی خدمت پر مامور کردیا اور اس انسان کی جسمانی وروحانی تربیت کا مکمل انتظام کیا۔

یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے، مگر اسی پر اکتفا نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہم پر مزید فضل فرمایا کہ ہمیں مسلمان بنایا اور اس اُمت کا فرد بنایا جو سب سے بہتر اُمت ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ کرم فرمایا کہ ہمیں طالب علم بنایا، وہ طالب علم جس کے پاؤں کے نیچے فرشتے پَر بچھاتے ہیں، جس کے لیے ہر مخلوق دعا کرتی ہے۔ 

حتیٰ کہ مچھلی پانی میں اور چیونٹی اپنی بل میں اس کے لیے دعاگو ہوتی ہے اور سب سے بڑی نعمت یہ عطا فرمائی کہ حدیث کا طالب علم بنایا، آج آپ کے لیے کس قدر مسرت وخوشی کا دن ہے اور یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ ’’أصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ (اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتاب) بخاری شریف کی آپ نے تکمیل کی، اس کا آخری سبق پڑھا، صرف بخاری ہی نہیں، بلکہ صحاحِ ستہ کے علاوہ موطا امام مالک، موطا امام محمد ؒاور امام طحاویؒ کی کتاب الآثار بھی پڑھ چکے ہو۔ 

اللہ پاک نے آپ کو انبیاءکا وارث بنادیا، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ آپ بہت خوش قسمت ہیں، آپ کو کسی حکومت، کسی سرمایہ دار، کسی جاگیردار کی وراثت نہیں ملی، آپ کو شداد، فرعون، نمرود اور قارون کی وراثت نہیں ملی، بلکہ انبیاء کی وراثت آپ کے حصے میں آئی ہے، آج اللہ پاک نے انبیاءکی وراثت کا تاج آپ کے سروں پر رکھ دیا، وہ انبیائے کرامؑ جن کا مقام بہت بلند ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کے بعد انبیاءؑ ہی کا درجہ ہے، انبیاءؑ کا مقام تو بہت بلند ہے، حضور اکرم ﷺ کی صحبت میں بیٹھنے والے، آپ ﷺ کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو جِلا بخشنے والے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام بھی اس قدر اَرفع اور بلند ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں۔

صحابۂ کرام ؓکے مقام کا اندازہ اس واقعہ سے لگایئے! ایک مرتبہ کسی نے اپنے وقت کے جلیل القدر محدث حضرت عبد اللہ بن مبارک ؒسے پوچھا : امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ ؓ کا مرتبہ بلند ہے یا عمر بن عبد العزیزؒ کا؟ آپؒ نے فرمایا: ’’ حضرت امیر معاویہ ؓ نے جس گھوڑے پر سوار ہوکر حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد کیا ہے، اس گھوڑے کی ناک اور نتھنوں میں جو غبار داخل ہوا، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اس کے برابر بھی نہیں۔ ‘‘یہ کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے، حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ کوئی شاعر نہیں تھے، بلکہ اپنے وقت کے بہت بڑے محدث اور جید عالم تھے۔

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ بہت بڑے اللہ والے، صاحبِ علم اور علم دوست تھے، بڑی خوبیوں کے مالک۔ انہیں خلفائے راشدین ؓکے زمرے میں شمار کیا جاتاہے اور ان کے بے مثال دورِ حکومت کو خلافتِ راشدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، مگر چونکہ صحابی نہیں تھے، انہوں نے حضور اکرم ﷺ کی زیارت نہیں کی تھی، ا س لیے صحابی کے برابر نہیں ہوسکتے۔ بڑے سے بڑا عالم، شیخِ وقت، قطب وابدال کوئی بھی ایک ادنیٰ صحابی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ 

جب صحابہ ؓکا یہ مقام ہے تو انبیاءؑ کا مقام تو صحابہ کرام ؓ سے بہت بلند ہے، ان انبیاءؑ کا وارث اللہ نے آپ کو بنایا، آپ کو وراثت میں دولت نہیں ملی، جاگیر نہیں ملی، بلکہ علم کا خزانہ آپ کے ہاتھ آیا ہے ، اتنی بڑی دولت اور نعمت ہے کہ دنیا کی تمام دولت اور ہر نعمت اس پر قربان کی جاسکتی ہے اور اتنی بڑی نعمت کے مل جانے پر آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب کے آخر میں جو حدیث ذکر کی: ’’سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم‘‘ یہ حمد کی حدیث ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی پاکی اور اللہ کی حمد وثنا ہے۔ اس حدیث کو آخر میں بیان کرکے امام بخاری ؒ نے اس نعمت کا شکریہ ادا کیا ہے اور آپ کو بھی شکرِ خداوندی کی ترغیب دی ہے، آپ پر بھی واجب اور ضروری ہے کہ اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر ادا کریں۔

امام بخاری ؒبہت اونچی شخصیت کے مالک تھے، آپ کے علمی مقام کا اندازہ اس سے لگایئے کہ چھ لاکھ احادیث کے ذخیرہ سے صحیح احادیث منتخب کرکے یہ کتاب تصنیف فرمائی، حتیٰ کہ اپنے وقت میں احادیث کی صحت وضعف کو پرکھنے کے لیے علماء کی نظر میں آپ ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔

آپ کے زہد کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ بیمار ہوگئے، تشخیصِ مرض کے لیے اطباء کو جب ان کا قارورہ دکھایا تو اطباء نے قارورہ دیکھ کر کہا کہ یہ تو ایسے راہب کا قارورہ معلوم ہوتا ہے جس نے عرصۂ درازسے سالن استعمال نہ کیا ہو۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ چالیس سال سے سالن استعمال نہیں کیا، صرف جَوکی سوکھی روٹی کھایا کرتے تھے۔ حکماء کے اصرار پر صرف یہ منظور کیا کہ جَو کی روٹی کے ساتھ صرف تین بادام استعمال کریں گے، یہی ان کا سالن تھا۔

ان کا علمی مقام اپنی جگہ پر مسلَّم، انہوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ علم حاصل کیا، بلکہ اس علم کی لاج بھی رکھی، آج کل اس چیز کی بہت کمی ہے، حالانکہ یہ بہت ضروری ہے کہ جب اللہ نے علم عطا فرمایا ہے تو اس کی لاج بھی رکھے، علم کی عزت کرے، اس کی توہین نہ کرے، اسے بے عزت نہ کرے، کوئی ایسا کام نہ کرے جس کی وجہ سے علم بدنام ہو، اس کی تذلیل ہو۔

حضرت امام بخاری ؒ کے کسی کے ذمے پچیس ہزار درہم تھے اور وہ مسلسل ٹال مٹول کررہا تھا، دینا ہی نہیں چاہتا تھا، اس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم تھی۔ امام صاحبؒ کے کسی دوست نے مشورہ دیا کہ حاکمِ وقت آپ کا معتقد ہے، آپ کے متعلقین میں سے ہے، آپ اگر اشارہ بھی کردیں تو آپ کی یہ رقم وصول ہوجائے گی۔ 

امام بخاری ؒنے فرمایا: وہ میرے علم کی وجہ سے میرا معتقد ہے، میں اپنے علم اور دین کو دنیا کے کسی کام کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتا، نہ اس سے دنیا کا کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہتاہوں۔ حکمرانوں کا حال تو یہ ہے کہ جب وہ کسی کا کوئی کام کرتے ہیں تو اس کا بدلہ بھی چاہتے ہیں، آج وہ میرا یہ کام کردیں گے، کل مجھ سے اپنا کوئی کام لیں گے، دنیا کا کوئی کام میرے سپرد کریں گے اور میں دین کو چھوڑ کر کبھی دنیا اختیار نہیں کرسکتا۔ تو علم کا وقار اور اس کا تحفظ بھی آپ کی ذمہ داری ہے، آپ اس کا وقار بلند کریں، اسے ذلیل ورسوا ہونے نہ دیں۔

حضرت امام مالک ؒ جو ’’إمام دار الہجرۃ‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں، آپ اپنے وقت کے مجتہد تھے، ہزاروں آدمی آپ کے مقلد تھے، خصوصاً مغرب کے لوگ تو اکثر آپ کے مقلد تھے۔ مغرب سے ان کے مقلدین کا ایک وفد چالیس مسائل لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ سے یہ مسائل پوچھے، آپ نے ان میں سے صرف چار مسئلوں کا جواب دیا، باقی چھتیس مسائل کے جواب میں آپ نے ’’لا أدری‘‘ (میں نہیں جانتا) فرمایا۔

آج کل تو ایک مرض یہ بھی ہے کہ اپنی علمیَّت اور قابلیت ضرور ظاہر کی جاتی ہے، کوئی مسئلہ پوچھا جائے تو اس کا جواب ضرور دیا جاتا ہے، چاہے غلط ہی کیوں نہ ہو، اور یہ کہنے میں سبکی محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں اس کا جواب نہیں معلوم، حالانکہ یہ بہت بڑا جہل ہے، بلکہ ڈبل جہل۔ 

اگر کوئی بات معلوم نہ ہو تو کہہ دینا چاہیے کہ مجھے معلوم نہیں۔ یہ اعتراف واقرار کرنا بھی ایک طرح کا علم ہے ۔ جو علم آپ نے حاصل کیا، اس کا مطالبہ اور تقاضا یہ ہے کہ آپ اس پر عمل پیرا ہوں، آپ کے اخلاق بلند ہوں، تکبر وغرور سے آپ دور ہوں، علم‘ تواضع اور انکساری چاہتا ہے۔

محدث العصر مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ جن کی شخصیت، جن کے اخلاق، جن کے اخلاص سے آپ واقف ہیں، جنہوں نے کس حال میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کی بنیاد رکھی، اسباب و وسائل سے تہی دامن تھے، مگر اخلاص وللہیت اور اللہ پر اعتماد کی دولت سے آپ کا دامن لبریز تھا، اسی کو بنیاد بناکر یہ کام شروع کیا، کس حال میں شروع کیا تھا اور کس طرح اللہ نے کامیابیوں سے نوازا۔

شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ ٹرین میں سفر کررہے تھے، ہر طرح کے لوگ اس میں سوار تھے، مسلمان بھی اور غیرمسلم بھی، ایک ہندو جو آپ کے برابر میں ہی بیٹھا ہوا تھا، قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء گیا، مگر ناک بھوں چڑھاتا ہوا واپس آگیا کہ وہ تو بہت گندہ استعمال کے قابل نہیں، تھوڑی دیر میں حضرت مدنی ؒ چپکے سے اُٹھے اور جاکر اپنے ہاتھوں سے اس طرح صاف کردیا، کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے یہاں غلاظت کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ 

حضرت مدنی ؒ اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے اور اس ہندو سے کہا: آپ کو تقاضا تھا، آپ چلے جایئے، اس نے کہا: نہیں، وہ تو بہت گندہ ہے، آپ نے فرمایا: نہیں، وہ تو بالکل صاف ہے، میں ابھی ہوکر آیا ہوں، جب وہ ہندو وہاں گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا اور سمجھ گیا کہ اسی شخص نے یہ صاف کیا ہے۔ 

تھوڑی دیر بعد اسٹیشن آیا تو وہ ہندو اُتر کر دوسرے ڈبے میں سوار ہوگیا اور کہنے لگا: اگر تھوڑی دیر میں اور اُن کے پاس بیٹھتا تو مسلمان ہوجاتا۔ یہ تھے ہمارے اکابر اور بزرگ جو ا س قدر بلند اخلاق کے مالک تھے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ جب ہم ان کے نام لیوا ہیں تو ان کے سے اخلاق بھی اپنے اندر پیدا کریں، تواضع اور انکساری اختیار کریں، تکبر اور اَکڑ سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ یہ انسان کی ذلت ورسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہمارے اکابر کو جو بلند مقام حاصل ہوا وہ اسی تواضع اور اخلاقِ عالیہ کی بدولت۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اُسے بلند کرتا ہے۔ ‘‘

دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے صدر مدرس مولانا محمد یعقوب نانوتوی ؒجو اپنے وقت کے صاحبِ دل اور مجذوب تھے، بہت بڑے بزرگ تھے، ایک دن کلاس میں آئے یہ کہتے ہوئے: ’’منواکر چھوڑا، منواکر چھوڑا۔‘‘ پوچھا گیا: حضرت! کیا منواکر چھوڑا؟ اور کس سے منوایا؟ فرمایا: ’’میں ایک عرصہ سے یہ دعا کرتا رہا: ’’اے اللہ! جو بھی اس دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو، اُسے معاشی لحاظ سے کبھی تنگی میں مبتلا نہ کر، یہ دعا میں ہمیشہ کرتا رہا، مگر آج تو اللہ پاک سے منواکرہی چھوڑا، آج اللہ نے میری دعا قبول فرمالی۔ ‘‘

ہمارا بھی اسی دارالعلوم دیوبند سے تعلق ہے، اور یہ بھی بتادوں کہ ہمارے حضرت ؒ نے بھی اس ادارے، اس میں پڑھنے والے، اس کے متعلقین اور اس کے معاونین اور اس کے مخلصین سب کے لیے اس قدر دعائیں کی ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں اور بس دیکھتا ہوں کہ آج جہاں کہیں بھی اس ادارے کے فضلاء دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں دنیا کے لحاظ سے کبھی تنگی نہیں ہوئی۔ 

آپ بھی یہ عزم کر لیجئے کہ ہم دین کی خدمت کریں گے تو ان شاء اللہ! کبھی آپ کو تنگی نہیں ہوگی۔ ہم نے بہت سے ایسے ساتھیوں کو دیکھا ہے جن کی علمی استعداد بہت کم تھی، مگر جب وہ اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت میں مصروف ہوئے تو اللہ تعالیٰ ان سے دین کی خدمت بھی لے رہا ہے اور دنیا کے اعتبار سے بھی وہ اچھی حالت میں ہیں۔

طالب علم اور اس کے فضلاء تو تنگی میں کیوں کر مبتلا ہوں گے؟! اس کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو اللہ نے بے انتہا نوازا۔ ایک حضرت کے پاس آکر بار بار یہ کہتے تھے : ’’ مدرسے کی خدمت کی برکت سے اللہ نے مجھے بہت دیا۔‘‘ حضرت اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے کہ:’’ اللہ نے اسے اس قدر نوازا ہے کہ یہ ضبط نہیں کرپارہا اور اس کا اظہار کرنے پر مجبور ہے۔ ‘‘آپ بھی معاشی مسئلہ سے پریشان نہ ہوں، دین کے سپاہی بن جائیں اور دین کی خدمت کا عزمِ مصمم کرلیں تو یہ سب مسئلے حل ہوجائیں گے۔ ( …جاری ہے …)