راولپنڈی (نمائندہ جنگ )پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا ہے کہ 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام کا مقدمہ ہے‘ انصاف کا عمل 9مئی کے اصل گھناؤنے کرداروں اور منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک چلے گا‘کچھ لوگ اپنی سیاست کے لیے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں‘ اس بیانیے اور زہریلے پرو پیگنڈے کی بنیاد رکھنے والے ہی اصل ماسٹر مائنڈ ہیں‘ 2021ء میں کس کی ضدتھی کہ فتنہ الخوارج سے بات چیت کرکے انہیں دوبارہ آباد کیا جائے‘ایک شخص کی غلطی کی قیمت قوم نے اپنے خون سے ادا کی، فورسز غلط فیصلوں کے دھبے اپنے خون سے دھو رہی ہیں‘ملٹری کورٹس کو عالمی عدالت کی تائید حاصل ہے‘جو لوگ فوجی عدالتوں کے مخالف ہیں کچھ عرصہ پہلے تک ان عدالتوں کے سب سے بڑے داعی تھے ‘کچھ عرصہ پہلے بیانیہ بنایا گیا کہ نو مئی کے حملے ایجنسیوں نے کرائے‘اب انتشاریوں کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ایجنسیوں کے بندوں کوبھی سزائیں دی گئیں‘فیض حمیدکے معاملے پر تبصروں سے گریز کیا جائے ‘سیاستدانوں کے درمیان مذاکرات کی پیشکش اور اس پر جواب دینا خوش آئندہے‘ سیاست‘ کنفیوژن اور بیانیہ سازی کے بجائے خیبرپختونخوا حکومت گڈ گورننس پر توجہ دے‘26 نومبر کو سیاسی قیادت کے بھاگنے کی جگ ہنسائی سے بچنے کیلئے کارکنوں کی ہلاکت کا بیانیہ بنایا گیا‘انتشاری سیاست کا کنٹرول ملک سے باہر سوشل میڈیا کے پاس ہے ‘انسانی حقوق پر جو تنظیمیں واویلا مچا رہی ہیں‘ وہ ایسی مہم غزہ اور کشمیر پر چلائیں‘پاک فوج بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سال 2024ء میں دہشت گردوں کے کئی بڑے ناموں سمیت 925 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا گیا اور آپریشنز میں 73 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو مارا گیا‘383 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ پاکستان کی تمام تر کوشش کے باوجود افغان سرزمین سے دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں، دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان تک جاتے ہیں، دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔پاک فوج بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے‘بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے‘بھارت مقبوضہ کشمیر میں عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے، ہم مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔بھارت دیگر ممالک میں سکھوں کے قتل میں بھی ملوث ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے ناسور کے خلاف پوری قوم نے اداروں کے ساتھ مل کر لڑنا ہے کیونکہ محفوظ پاکستان ہی مضبوط پاکستان ہے‘پاکستان میں دہشتگردی‘ بھتہ خوری اورا سمگلنگ کا اربوں روپے کا سپیکٹرم موجود ہے‘دہشت گردی اس وقت ختم ہو گی جب انصاف، تعلیم، صحت اور گڈ گورننس ہو گی، دہشت گردی اس وقت ختم ہو گی جب دہشت گردی اور جرائم کا گٹھ جوڑ ختم ہوگا، پاکستان میں اربوں روپے کا غیر قانونی سپیکٹرم ہے جس کا فیک نیوز بھی حصہ ہے، یہ فیک نیوزا سپیکٹرم کو توڑنے کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے، اشرافیہ بھی غیر قانونی اسپیکٹرم کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ سکیورٹی ادارے اس غیر قانونی سپیکٹرم کے خلاف کھڑے ہیں۔احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ 8 لاکھ سے زائد غیرقانونی مقیم افغانوں کو واپس بھجوایا جا چکا ہے، ملک کی ڈیجیٹل سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں، احساس محرومی کا جھوٹا، مصنوعی بیانیہ بنایا جاتا ہے، بلوچستان میں احساس محرومی کے جھوٹے بیانیے کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو سال سے افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت اور رابطہ جاری ہے‘افغان حکومت کو باور کرایا جاتا ہے کہ فتنہ الخوارج اور سہولت کاری کو روکیں، واضح پالیسی عمل میں ہے‘ ڈیجیٹل سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے لیگل اور ٹیکنیکل ایکشن لیے جا رہے ہیں۔سیاسی جماعتوں کے مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاک فوج کا ہر حکومت کے ساتھ سرکاری اور پیشہ وارانہ تعلق ہوتا ہے‘ اس تعلق کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں، تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈرز قابل احترام ہیں‘سیاستدان مل بیٹھ کر اپنے معاملات حل کریں نہ کہ انتشاری انداز اپنایا جائے۔کسی سیاسی لیڈر کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بڑھ کر نہیں۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے پیچھے مربوط سازش اور منصوبہ بندی تھی، اس منصوبہ بندی اور سازش میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے، ملٹری ٹرائل میں ملزم کو قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں، فیض حمید کو یہ حق حاصل بھی ہے، کوئی بھی افسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو جواب دینا پڑے گا، نومبر 2024ء میں بھی 9 مئی 2024ء کا تسلسل دیکھا۔9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے، دہشت گردی کے مسئلے پر مزید کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ نومبر میں ہونے والے دھرنے میں فوج کے کردار اور ہونے والی اموات سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یکم دسمبر کو وزارت داخلہ نے اس حوالے سے مفصل اعلامیہ جاری کیا تھا، اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ فوج کو پرتشدد ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے تعینات نہیں کیا گیا تھا، فوج کی تعیناتی صرف ریڈ زون تک محدود تھی جبکہ سیاسی قیادت کے مسلح گارڈ اور ہجوم میں شامل لوگوں کے پاس آتشی اسلحہ تھا، مظاہرین کے پاس اسلحہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھا بھی، بے معنی ہنگامہ آرائی سے توجہ ہٹانے کے لیے فیک نیوز کا سہارا لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ فوج کسی خاص سیاسی جماعت یا نظریہ کی نہ مخالف ہے نا حمایتی، 26 نومبر کی سازش کے پیچھے سوچ سیاسی دہشت گردی کی ہے، 26 نومبر کو ہزاروں کارکنوں کی شہادت کا جھوٹ پھیلایا گیا، ان کو اعتماد ہے کہ یہ کوئی بھی جھوٹ بیچ سکتے ہیں۔ جب سیاسی قیادت وہاں سے بھاگی تو سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا دیا گیا، قانون اجازت دیتا ہے کہ آپ پرامن احتجاج کریں لیکن آپ پولیس رینجرز پر حملے کرتے ہیں تو یہ سیاسی دہشت گردی ہے، آپ مسلح جتھے کو لے کر وفاق پر حملہ آور ہو جائیں، فیک نیوز اور جھوٹے پروپیگنڈا کے باعث یہ ہوتا ہے، انھوں نے 26 نومبر کو بیانیہ دیا کہ ہزاروں افراد مارے گئے۔ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ انتشاری سیاست کا کنٹرول اندرون ملک سیاسی لیڈرز کے پاس نہیں، ملک سے باہر افراد کے پاس اس انتشاری سیاست کا کنٹرول ہے، کیسے انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا سے سامنے آتی ہیں، ان تنظیموں کو غزہ فلسطین نظر نہیں آئیں گے، انسانی حقوق پر جو تنظیمیں واویلا مچا رہی ہیں، وہ ایسی مہم غزہ اور کشمیر پر چلائیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں افغانستان خوارجیوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے، دوست ممالک کے ذریعے بھی افغانستان سے بات چیت ہو رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چند دن قبل 16 ایف سی جوان شہید ہوئے، کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟، فتنہ خوارج کی کمر ٹوٹ گئی تھی تو کس کے فیصلے پر بات جیت کرکے انھیں سیٹل کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ 2021ء میں کس کی ضد تھی کہ بات چیت کرکے ان کو سیٹل کیا جائے، بات چیت کی اس ضد کی قیمت خیبرپختونخوا ادا کر رہا ہے، بجائے اس پر بیانیہ بنانے کے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، ایسے ہر مسئلہ کا حل بات چیت سے ہوتا تو دنیا میں جنگ اور غزاوت نہ ہوتے، ایسے رویے کی قیمت پوری قوم دیتی ہے، بجائے اس پر بیانہ بنائیں، سیاست کریں، گڈ گورننس کیوں نہ کریں، انہوں نے کیونکہ گڈ گورننس پر توجہ نہیں دینی اس لیے اس پر سیاست کرنی ہے۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سے متعلق سوال پر ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا پاک فوج کا خود احتسابی کا عمل بہت شفاف اور جامع ہوتا ہے، پاک فوج میں کوئی بھی افسر اور جوان قانون سے بالاتر نہیں ہوتا، کوئی بھی افسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو اسے جواب دینا پڑے گا، فیض حمید کا معاملہ بہت حساس ہے اور یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے، اس پر جو بھی تفصیلات ہوں گی وہ شیئر کر دی جائیں گی، لہذا اس معاملے پر زیادہ تبصروں سے گریز کیا جائے۔