• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی رہائی سیاسی استحکام کیلئے ضروری

گریٹر مانچسٹر کی ڈائری… ابرار حسین
حال ہی میں امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل نے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے 9مئی کے واقعات میں مبینہ ملوث پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی ملٹری کورٹس سے دی گئی سزاؤں پر تحفظات کا اعلانیہ اظہار کیا ہے ساتھ ہی پاکستان کے میزائل سے متعلق بعض کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کے اعلانات بھی سامنے آئے ہیں ان سب معاملات کو اگر ملا کر دیکھا جائے تو پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف بلاشبہ نہ صرف ملک کے اندر سب سے زیادہ مقبول عام جماعت ہے بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی و کشمیری آباد ہیں وہاں پر اکثریت پی ٹی آئی کی دکھائی دہتی ہے۔ 8فروری کے ملکی عام انتخابات میں پاکستانی رائے دہندگان کی غالب اکثریت نے اسی جماعت کے بیانیہ کو ووٹ دیا۔ اب عوامی رائے کو سبوتاژ کرکے جو حکومت بنائی گئی اسے قبولیت حاصل نہیں ہو رہی۔ ملک کے اندر کروڑہا اور لاکھوں اوورسیز پاکستانیوں کشمیریوں کی بھی ٹرمپ انتظامیہ کے بیانات کو واضح حمایت حاصل ہوئی ہے، جو اندرون اور بیرون ملک یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی رہائی پاکستان میں سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ سویلین کے ملٹری ٹرائلز سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا جس کے طویل المدتی معاشی اور سماجی اور بین الاقوامی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی پس منظر پر نظر دوڑائی جائے تو عمران خان، جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ہیں، اگست 2023سے مختلف الزامات کے تحت قید ہیں، جن میں بدعنوانی اور غداری کے الزامات شامل ہیں۔ خان اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سیاسی بنیادوں پر عائد کیے گئے ہیں۔ موجودہ مخلوط حکومت، جس کی قیادت وزیراعظم شہباز شریف کر رہے ہیں، ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور عمران خان سے کہتی ہے کہ وہ قانونی نظام کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں۔ لیکن عمران خان کی حمایت یافتہ پی ٹی آئی کے علاوہ غیر جانبدار سیاسی مبصرین بلامبالغہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو انصاف مہیا نہیں کیا جا رہا۔ رچرڈ گرینل کے بیان کو پاکستانی و کشمیری بالخصوص برطانیہ اور مغربی ممالک میں رہائش پذیر باشعور باشندوں کی جانب سے ویلکم کیا گیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جب پاکستان پر آمریت کے سائے منڈلا رہے ہیں سپریم پاور کی مداخلت دراصل حقوق انسانی کے عالمی اصولوں کی پاسداری کے عین مطابق ہے۔ رچرڈ گرینل، جو امریکہ کے سابق قائم مقام ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے سوشل میڈیا پر خاص طور پر پلیٹ فارم ایکس پر، عمران خان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی ہے۔ ان کے ’’فری عمران خان‘‘ کے ٹویٹ کو پاکستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں خاصی توجہ ملی ہے۔ بہت سے لوگوں نے گرینل کے موقف کو آئندہ آنے والی امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات کے ممکنہ رویے کے طور پر دیکھا ہے۔ ملکی ردعمل کے نتیجے میں پاکستان میں گرینل کے بیانات کو اگرچہ حمایت اور تنقید دونوں کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی نے ان کے ریمارکس کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے اپنے مؤقف کی بین الاقوامی توثیق کے طور پر دیکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں، نے گرینل کی حمایت پر اظہار تشکر کیا ہے۔ اس کے برعکس حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما، جیسے طلال چوہدری نے پاکستان کی خودمختاری کے احترام کی اہمیت پر زور دیا ہے اور اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف خبردار کیا ہے۔ بین الاقوامی نقطہ نظر کے مطابق گرینل کے بیانات نے بین الاقوامی برادری سے بھی ردعمل حاصل کیا ہے اور پاکستانی دفتر خارجہ نے گرینل کے بیانات کا براہ راست حوالہ دیے بغیر اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے عزم کو دہرایا ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں باہمی احترام کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ یہ سفارتی موقف اس حساسیت کو اجاگر کرتا ہے جو پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات پر بیرونی تبصروں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستانی تارکین وطن نے بھی گرینل کی حمایت کا بھرپور خیرمقدم کیا ہے۔ بہت سے بیرون ملک مقیم پاکستانی ان کے بیانات کو عمران خان کے خلاف ہونے والی مبینہ ناانصافیوں کی طرف بین الاقوامی توجہ دلانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے حمایت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جہاں انہوں نے اپنے اپنے ممالک میں پرامن مظاہروں اور لابنگ کی کوششوں کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاسی استحکام کے مضمرات کے پیش نظر عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کی مسلسل گرفتاری سیاسی کشیدگی کو بڑھا رہی ہے اور پاکستان میں جمہوری عمل میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خان کی رہائی سے زیادہ جامع سیاسی مذاکرات کا راستہ ہموار ہوگا اور جاری تنازعات کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم مخالفین کا خیال ہے کہ بیرونی دباؤ سے بلکہ خاص طور پر غیر ملکی سیاسی شخصیات کی طرف سے پاکستان کی خودمختاری کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اندرونی سیاست میں بین الاقوامی مداخلت کے لیے ایک مثال قائم کر سکتا ہے۔ سو امریکہ کی آئندہ حکومت سے منسلک ایک اہم شخصیت کی جانب سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ایک پیچیدہ عنصر شامل کر چکا ہے۔ اگرچہ اس نے خان کے حامیوں اور بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی میں حمایت کو مضبوط کیا ہے لیکن اس نے خودمختاری، بین الاقوامی تعلقات اور اندرونی سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے مناسب ذرائع کے بارے میں بھی بحث کو جنم دیا ہے۔ جیسے جیسے صورتحال آگے بڑھے گی ملکی جذبات اور بین الاقوامی نقطہ نظر کے درمیان توازن عمران خان کی قید اور پاکستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بحث کو تشکیل دیتا رہے گا۔ اسی لیے ہم دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور تمام سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو بلا مشروط فوری طور پر رہا کر کے ملک کو بیرونی مداخلت سے بھی بچایا جائے اور ملک کے اندر عدالتی نظام کو بہتر بنا کر سیاسی اور میڈیا اور سب سے بڑھ کر پارلیمنٹ اور شخصی آزادیوں کو یقینی بنانے کی طرف اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ انصاف کے تقاضوں پورا کیا جا سکے جس سے ملک پر چھائے ہوئے مایوسیوں کے بادل چھٹ سکیں اور ملک ایک بہتر سمت کی جانب گامزن ہو سکے۔
یورپ سے سے مزید