تحریر: محمد رجاسب مغل… بریڈفورڈ
’’جنگل کا قانون‘‘ ایک بے ترتیبی اور بدانتظامی کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ تشبیہ جنگل کے حقیقی نظام کے ساتھ انصاف نہیں کرتی اگر چہ دنیا میں مختلف نظام موجود ہیں جو انسانوں یا قدرتی عناصر کی زندگی کو منظم رکھنے کیلئے کام کرتے ہیں لیکن جنگل کا نظام، جو قدرتی اصولوں پر مبنی ہوتا ہے، ایک مثالی نمونہ پیش کرتا ہے۔ دوسری طرف، پاکستان کا نظام انسانی مداخلت، ناانصافی، بدعنوانی، اور غیر منظم ڈھانچے کی وجہ سے مسائل سے دوچار ہے۔ اگر ہم ان دونوں نظاموں کا موازنہ کریں تو ہمیں واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ کس طرح قدرتی اصولوں پر مبنی نظام انسانی معاشرے کے لیے مشعل راہ ہو سکتا ہے آئیے پہلے جنگل کے ضابطوں کے مثالی نظام کا جائزہ لیتے ہیں جنگل کا نظام قدرت کے اصولوں پر چلتا ہے، جو بغیر کسی تحریری قانون کے ایک توازن قائم رکھتا ہے جنگل میں طاقتور جانور، جیسے شیر اور چیتا، کمزور جانوروں پر غالب ہوتے ہیں لیکن وہ صرف اپنی ضرورت کے مطابق شکار کرتے ہیں کمزور جانور چالاکی اور اجتماعی طاقت کے ذریعے اپنی بقا کو یقینی بناتے ہیں ہر جانور کی اپنی حدود ہوتی ہیں، اور ان حدود کی حفاظت کے لیے قدرتی اصولوں کا احترام کیا جاتا ہے جنگل کے جانور اپنے ماحول سے صرف اتنا لیتے ہیں جتنا ان کی ضرورت ہوتی ہے جس سے وسائل ضائع نہیں ہوتے جانوروں میں اجتماعی زندگی کا رجحان پایا جاتا ہے، جیسا کہ ہرن اور زیبرا کے گروہ، جو ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں بیمار اور کمزور جانور شکاریوں کا شکار بنتے ہیں، جس سے جنگل میں صحت مند نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ جنگل کا نظام انصاف، توازن، اور بقا کے اصولوں پر مبنی ہے، یہ نہ صرف جانوروں کے درمیان بلکہ قدرتی وسائل کے تحفظ میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے پاکستان کے نظام کی بات کی جائے تو پاکستان کا نظر آنے والا نظام کچھ اس طرح ہے ۔ پاکستان کا نظام انسانی اصولوں اور قوانین پر مبنی ہے لیکن اس میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں جو انصاف اور توازن کو متاثر کرتی ہیں۔ پاکستان میں طاقتور طبقے (سیاستدان، جاگیردار، اور اشرافیہ) کمزور عوام کا استحصال کرتے ہیں طاقتور افراد قانون سے بچ نکلتے ہیں، جب کہ غریب عوام کو انصاف کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے پاکستان میں قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کا فقدان ہے عدالتی نظام میں کیسز کے فیصلے دہائیوں تک التوا کا شکار رہتے ہیں قدرتی اور مالی وسائل کا بڑا حصہ طاقتور طبقے کے قبضے میں ہے، جبکہ عوام ان وسائل سے محروم ہیں بدعنوانی اور رشوت نے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ناممکن بنا دیا ہے پاکستان میں عوام کے درمیان اجتماعی تعاون کا فقدان پایا جاتا ہے، ذاتی مفادات کو اجتماعی فلاح پر ترجیح دی جاتی ہے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق پاکستان کے نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے تعلیم، صحت، اور دیگر بنیادی سہولیات میں امتیاز عام ہے، پاکستان کا نظام ایک غیر متوازن اور غیر منظم ڈھانچے کی عکاسی کرتا ہے، جہاں طاقتور اور کمزور کے درمیان فرق روز بروز بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے نظام کو جنگل کے اصولوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے پاکستان اگر جنگل کے اصولوں سے سبق لے تو ایک متوازن اور منصفانہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے مثلاً قانون کی حکمرانی کے لیے پاکستان میں قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تاکہ طاقتور اور کمزور کے درمیان انصاف قائم ہو وسائل کا منصفانہ استعمال ممکن بنانے کے لیے جنگل کے نظام کی طرح قدرتی اور مالی وسائل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور عوام کی فلاح پر خرچ کیا جائےاجتماعی تعاون کے فروغ کے لیے عوام کو اجتماعی سوچ اپنانے کی ترغیب دی جائے تاکہ ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کو ترجیح دی جا سکے انصاف کیلئے عدالتی نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ کمزور طبقے کو بروقت انصاف مل سکے جنگل کے جانوروں کی طرح ماحول اور قدرتی وسائل کی حفاظت کو اولین ترجیح دی جائے جنگل اور پاکستان کے قانون اور ضابطوں کا اگر موازنہ کیا جائے تو جنگل کے ضابطے ایک مثالی نظام کی عکاسی کرتے ہیں جہاں توازن، انصاف، اور بقا کے اصولوں پر عمل ہوتا ہے۔ پاکستان کے نظام کو ان اصولوں سے سبق لینے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم قدرتی توازن اور انصاف کے ان اصولوں کو اپنی زندگی میں شامل کریں تو پاکستان ایک مضبوط، مستحکم، اور خوشحال ملک بن سکتا ہے۔ جنگل کے نظام کی کامیابی یہ ثابت کرتی ہے کہ قوانین کا احترام اور وسائل کا صحیح استعمال ہی کسی معاشرے کی ترقی کا راز ہے۔