محترم جناب شہباز شریف،
وزیراعظم پاکستان، السلام علیکم
2025 ءکے آغاز پر، میں آپ، آپ کے خاندان اور ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ یہ نیا سال قوم کیلئے کامیابی، استقامت، اور ترقی کا سال ثابت ہو۔ نیا سال ایک قیمتی موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی اب تک کی مسافت پر غور کریں اور اپنے مستقبل کیلئے نئے عزائم طے کریں۔ اس تناظر میں، میں آپ کی خدمت میں احترام کے ساتھ گزارش کرتا ہوں کہ آپ کے معزز دفتر کو 3مارچ 2024ءکو پیش کی گئی جامع قومی ترقی کی حکمت عملیوں پر پیش رفت کا جائزہ لینا چاہیے، جنہیں مراسلے کے آخر میں پیش کیا گیاہے۔ یہ حکمت عملیاں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے قلیل مدتی اور طویل مدتی مقاصد پر مشتمل ہیں۔ جیسا کہ پیٹر ڈرکر نے مشہور الفاظ میں کہا، "مستقبل کی پیش گوئی کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے تخلیق کیا جائے۔" اسی طرح، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مستقبل ہمارے سامنے نہیں بلکہ ابھی وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان آگے نہیں بڑھے گا، تو ہمیں خطرہ ہے کہ ہم عالمی مسابقتی ماحول میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اہم شعبوں جیسے کہ اقتصادی ترقی، غربت کا خاتمہ (جو آبادی کے انتظام سے جڑا ہوا ہے، اور اس سلسلے میں ہمیں بنگلہ دیش سے سیکھنا چاہئے، جس نے 1971ء کے بعد سے اپنی آبادی میں صرف 110ملین کا اضافہ کیا ہے جبکہ ہمارے ہاں 180ملین سے زائد افراد کا اضافہ ہوا ہے)، ماحولیاتی تحفظ، تعلیم، صحت کے بنیادی ڈھانچے اور مضبوط و متحرک خارجہ پالیسی پر پیش رفت کا جائزہ لے کر ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی کیلئے ہمارے عزائم صرف الفاظ تک محدود نہ رہیں بلکہ حقیقی کامیابیاں بن سکیں۔ آئیے 2025ءکو ایسا سال بنائیں جہاں ہم قابل پیمائش اہداف اور نتائج پر مبنی طرز حکمرانی کا عہد کریں۔ میرٹ، احتساب، اور حکمت عملی پر مبنی دور اندیشی کے اصولوں پر نئے عزم کے ساتھ، مجھے یقین ہے کہ 3مارچ 2024ءکو پیش کیا گیا وژن حقیقت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
3؍مارچ 2024ءکو ارسال کئے گئے مراسلے کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔ ’’محترم وزیراعظم شہباز شریف صاحب آپ کی آج کی تقریر نے قومی اسمبلی میں ان اہم مسائل کو جامع طور پر پیش کیا جو ہمارے ملک کو
آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہیں۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ مستقبل میں، چین کے ساتھ قریبی شراکت داری کو تسلیم کرنا بھی شامل کیا جائے، جو ہمارا مخلص حلیف ہے۔ مزید برآں، پہلے دن سے آپ کو حکومت کے امور چلانے کیلئے کرائے، نرخوں اور ٹیکسوں میں اضافے کی تجاویز موصول ہوں گی، جو غریب، نچلے درمیانے اور درمیانے طبقے پر مزید بوجھ ڈالیں گی، جیسا کہ گزشتہ 16ماہ کی حکومت کے دوران کیا گیا۔ اس سلسلے میں، بہترین حل یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو یہ ٹاسک دیا جائے کہ وہ موجودہ 20فیصد براہ راست اور 80فیصد بالواسطہ ٹیکسوں کے تناسب کو تبدیل کریں اور سینئر سرکاری افسران کی نہ صرف تنخواہوں بلکہ ان کی مراعات اور ٹی اے/ڈی اے میں بھی 50% کمی کریں۔ میں کچھ قابل عمل اہداف تجویز کرتا ہوں۔ 1۔ برآمدات:150ارب ڈالر۔ 2۔ جی ڈی پی:1000 ارب ڈالر۔ 3۔ غیر ملکی قرضے:50 ارب ڈالر۔ 4۔ 100ملین آبادی کو غربت کی لکیر سے اوپر لانا۔ 5۔ آلودگی کنٹرول اور ماحولیاتی تحفظ کے قوانین کا ملک بھر میں سختی سے نفاذ۔ 6۔ جنگلات کے رقبے کو پانچ سال میں تین گنا بڑھانا۔ 7۔ تمام اسکول جانے والے بچوں کیلئے اسکولوں کی سہولت فراہم کرنا۔ 8۔ تمام تحصیلوں میں عمدہ صحت کی سہولیات۔ 9۔ صاف پینے کے پانی کی فراہمی تمام تحصیلوں کی سطح پر۔ 10۔ مکمل طور پر خود مختار اور مجاز بلدیاتی نظام ملک بھر میں نافذ کرنا۔ 11۔ 2028 ءاولمپکس میں کم از کم 5گولڈ میڈلز اور 2026ءایشین گیمز میں 10گولڈ میڈلز کا ہدف۔ 12۔ تمام بڑے شہروں میں کچرا جمع کرنے کے مؤثر طریقہ کار۔ 13۔ تمام سرکاری اداروں کومنافع بخش بنانا۔ 14۔ تمام ضلعی صدر مقامات پر مؤثر عوامی نقل و حمل کا نظام۔ 15۔ روپے کی قدر کو بہتر بنانا تاکہ ایک ڈالر کے برابر 150روپے ہوں۔ 16۔ تمام ڈویژنل صدر مقامات کو اسمارٹ شہروں کے طور پر اپ گریڈ کرنا۔ 17۔ اور سب سے اہم، پاکستانی عوام کے ڈی این اے میں قانون کی حکمرانی شامل کرنا، جس کیلئے معاشرے کے اعلیٰ طبقے کو ذاتی مثالیں قائم کرکے وی آئی پی کلچر کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ مندرجہ بالا اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ہماری پوری سول سروس کو دوبارہ ترتیب دینا اور پولیس، عدالتی اور ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کرنا ضروری ہیں۔‘‘
مخلص، سید نیر الدین احمد