غالباً 1996ءکی بات ہے۔ میں لاہور میں ایڈجسٹ ہونےکیلئے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔عید قریب آئی تو سوچا کچھ دنوں کیلئےملتان چلا جاتا ہوں لیکن ایک مشکل آن پڑی۔ ہر جگہ مسافروں کا رش تھا اور کوئی بس یا ٹرین ایسی نہیں تھی جس میں سیٹ مل سکے۔تین دن بعد عید تھی اور ہر کوئی اپنے آبائی گھر جانے کا متمنی تھا۔ مجھے ایک طریقہ سوجھا۔ کیوں نہ عید والے دن سفر کیا جائے۔ میں نے پہلے کبھی یہ تجربہ نہیں کیا تھا لیکن مجھے لگتا تھا کہ کام بن جائے گااور ہوا بھی ایسے۔ عید کے دن لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچا تو ہر طرف ویرانی تھی اور جب ٹرین آئی تو وہ بھی لگ بھگ خالی ہی تھی۔ میں نے اطمینان سے پیر پسارے اور اکانومی کلاس کی ایک پوری نشست پر لیٹ گیا۔اتنا آرام دہ سفر پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ کچھ ا سٹیشن گزرے تو اِکا دُکا مسافر سوار ہوئے جن کا حلیہ دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انہیں یا تو عید منانے میں دلچسپی نہیں یا جتنی عید منانی تھی وہ مناچکے۔دن دھیرے دھیرے گزر رہا تھا۔ میں اٹھ کر کھڑکی کے ساتھ بیٹھ گیا۔شام کے ملگجے سائے دھیرے دھیرے اپنی آمد کی اطلاع دینے لگے تھے۔اسی دوران ایک نسبتاً چھوٹے اسٹیشن پر گاڑی رُکی اور ایک نوجوان ہاتھ میں مٹیالے رنگ کا سفری بیگ تھامے اندر داخل ہوا اور سیدھا میرے قریب آکر بیٹھ گیا۔میں نے جماہی لیتے ہوئے اس کی طرف اچٹتی سی نظر ڈالی۔ سانولا رنگ، کمزور جسم، پیروں میں سستی سی جوتی اور سلوٹوں بھرا لباس۔اس نے اپنا بیگ میری سیٹ پر رکھ دیا اور خود میرے ساتھ ہوکر بیٹھ گیا۔میں نے ڈبے پر نظر ڈالی، ہم کل چھ مسافر تھے اور کسی میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ ایک دوسرے سے باتوں میں وقت ضائع کرتے۔ سب کے چہروں پر بیزاری کے آثار نمایاں تھے۔کچھ دیر بعد ایک صاحب بالٹی اٹھائے ٹرین میں داخل ہوئے اور بھنی ہوئی دال کی آوازیں لگائیں۔ڈبے میں تھوڑی دیر کیلئے زندگی کے آثار پیدا ہوئے لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ایک منٹ بعد گاڑی پھر چل پڑی۔میں نے بھی آنکھیں موند لیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد گاڑی نے بریک لگائے تو ایک جھٹکے سے میری آنکھ بھی کھل گئی۔ شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ میں نے نیم وا آنکھوں سے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ ٹرین شائد کسی کراس کی وجہ سے رکی تھی کیونکہ یہ کوئی اسٹیشن نہیں تھا۔ اسی اثنا میں میری نظر سانولے نوجوان پر پڑی جو ٹرین سے اتر چکا تھا اور پٹڑی کے پتھروں پر دھیرے سے پیر جما کر دوسری طرف جارہا تھا۔ مجھے اس کا یوں اترنا عجیب لگا۔ کسی خیال کے تحت میں نے پینٹ کی جیب میں اپنے بٹوے پر ہاتھ مارا تو بٹوہ غائب تھا۔ایک دم سے مجھے کرنٹ لگا۔ایک تو ویسے ہی غربت تھی اوپر سے بٹوے کا غائب ہونا بھلا کیسے افورڈ ہوسکتا تھا۔ میں نے جاتے ہوئے نوجوان کو کھڑکی میں سے ہی چلا کر کہا ’رک جاؤ‘۔ایک لمحے کیلئے وہ رُکا، میری طرف دیکھا اور تیزی سے لائنوں کی دوسری طرف جانے لگا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ چھلانگ لگائی اور ٹرین سے اُتر کر اُس کے پیچھے بھاگ پڑا۔ ڈبے کے دیگر مسافر بھی چونک گئے تھے اور کھڑکی سے سر نکالے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر نوجوان نے بھی بھاگنا شروع کر دیا۔ جوانی کے دن تھے اورجیب میں کھلے پیسوں کے علاوہ بٹوے میں ساڑھے پانچ سو روپے تھے لہٰذا میں نے پوری قوت سے اس کی طرف دوڑنا شروع کردیا۔ نوجوان آگے آگے اور میں پیچھے پیچھے تھا۔ اچانک ٹرین کی وسل ہوئی۔ یعنی ٹرین چلنے کے لیے تیار تھی۔ عجیب سین بن گیا تھا۔ میں نوجوان کے پیچھے جاتا تو ٹرین چھوٹ جاتی، ٹرین کی طرف جاتا تو بٹوہ چلا جاتا۔ ایک لمحےکیلئے میں نےسوچا اور اُسی لمحے نوجوان کو پتھرسے ٹھوکر لگی اور وہ گر پڑا۔ موقع اچھا تھا۔ میں اس کے سر پر پہنچ گیا۔ گریبان سے پکڑ کر اسے اٹھایا اور پوری قوت سے ایک تھپڑ اس کے گال پر جڑتے ہوئے غرایا’بٹوہ نکالو‘۔اُسے بھی احساس ہوگیا تھا کہ معاملہ بگڑ گیا ہے لہٰذا اس نے سہم کر جلدی سے بٹوہ نکال کر میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے مڑ کر ٹرین کی طرف دیکھا جو دھیرے دھیرے رینگنے لگی تھی۔اس لٹیرے کو سبق سکھانا ضروری تھا لیکن اس چکر میں ٹرین نکل سکتی تھی۔ میں نے دانت پیستے ہوئے ایک اور تھپڑاسے رسید کیا اور بٹوہ لے کر ٹرین کی طرف بھاگا۔ نوجوان بھی جان چھڑا کر اندھیرے میں غائب ہوچکاتھا۔ٹرین ہلکی سی رفتار پکڑ چکی تھی لیکن میں نے آخری ڈبے کو پکڑ ہی لیا اور چھلانگ مار کر چڑھ گیا۔ جب میں مختلف ڈبوں سے ہوتا ہوا اپنے ڈبے میں پہنچا تو وہاں موجود سب مسافر مجھ سے ماجرا پوچھنے کیلئے بے چین تھے۔ میں نے ساری بات بتائی تو مختلف تبصرے شروع ہوگئے۔’آج کل بندے کا کوئی پتانہیں چلتا، ایسے لٹیروں کی شکلیں بڑی معصوم ہوتی ہیں‘ سفر کے دوران بندے کو پاس بیٹھنے والوں سے محتاط رہنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔‘میں بڑا فخر محسوس کر رہا تھا کہ میں نے خود کو لٹنے سے بچا لیا تھا۔مسافر بھی میری ہمت کی داد دے رہے تھے۔اگلا سارا سفر اسی پر بات ہوتی رہی، ایک واقعے نے سب کو زبانیں عطا کردی تھیں۔ملتان اسٹیشن پہنچ کر میں نے ویگن پکڑی اور سیدھا گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔بہادری کے احساس سے میرا سینہ پھولا ہوا تھا۔ گھر پہنچ کر بھی مصالحہ لگا کر سب کو یہ واقعہ سنایا۔چونکہ عید کا دن تو گزر چکا تھا لہٰذا امی نے کہا کہ کم ازکم نہا کر نئے کپڑے تو پہن لو تاکہ کچھ تو عید کی خوشی ہو۔ میں نے ہنستے ہوئے اثبات میں سرہلایا اورنیا جوڑا نکالنے کیلئے بیگ کھولا۔ جیسے ہی کپڑے اٹھائے میرے اوسان خطا ہوگئے، یوں لگا جیسے کسی نے میرے سر پر ہتھوڑا دے مارا ....میرا بٹوہ سامنے پڑا تھا۔